تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Saturday, March 28, 2015

٭ وضو کے بعد سورۃ القدر پڑھنا


وضو کے  بعد سورۃ القدر پڑھنا
 
 سیدنا انس رضی اللہ عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من قرأ في إثر وضوئهٖ: ﴿اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِي لَیْلَةِ الْقَدْرِ، مرۃ واحدۃ، کان من الصدیقین، ومن قرأھا مرتین، کتب في دیوان الشھداء، ومن قرأھا ثلاثا، حشرہُ اللہ محشر الأنبیاء.
"جو شخص وضو کرنے کے بعد ایک دفعہ سورۃ القدر کی تلاوت کرتا ہے، صدیقین میں شمار کیا جاتا ہے، جو اسے دو مرتبہ پڑھتا ہے، اس کا نام شہداء کے رجسٹر میں لکھ دیا جاتا ہے اور جو اسے تین مرتبہ پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے انبیائے کرام کے ساتھ حشر میں جمع فرمائے گا۔"
 (مسند الدیلمي، نقلًا عن الحاوي للفتاوي للسیوطي: ۳۳۹/۱)

موضوع (من گھڑت):  یہ جھوٹی روایت ہے؛
٭ علامہ سیوطی اس کے ایک راوی کے بارے میں لکھتے ہیں: وأبو عبدیۃ مجهول. "ابو عبیدہ نامی شخص مجہول ہے۔"
٭ ابن حجر ہیتمی نے بھی لکھا ہے: وفي سندہٖ مجهول "اس کی سند میں ایک راوی مجھول ہے۔" (الفتاوی الفقهیّة الکبرٰی: ۵۹/۱)
اس کی سند میں امام حسن بصری رحمہ اللہ کی "تدلیس" بھی موجود ہے۔ نیز ابو عبیدہ سے نیچے سند بھی مذکور نہیں۔
٭حافظ سخاوی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: وکذا قرائة سورۃ ﴿اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ، عقب الوضوء، لا أصل له.
"اسی طرح وضو کے بعد سورۂ قدر کی تلاوت بے اصل (بدعت) ہے۔"
٭علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ (السلسلة الضعیفة: ۱۴۴۹)

٭ سیدنا زکریا علیہ السلام کا درخت سے پناہ مانگنا


سیدنا زکریا   کا درخت سے پناہ مانگنا
 
معراج کے بارے میں ایک لمبی چوڑی روایت میں سیدنا ذکریا  کا رسول اللہ ﷺ سے یہ مکالمہ مروی ہے کہ:
 قالت بنو إسرائیل: قد غضب إلٰهُ زکریا، فتعالوا حتی نغضب لملکنا، فنقتل زکریا، قال: فخرجوا في طلبي لیقتلوني، فجائني النذیر، فھربت منھم، وإبلیس أمامھم، یدلھم علي، فلما أن تخوفت أن لا أعجزھم، عرضت لي شجرۃ، فنادتني، فقالت: إلي، وانصدعت لي، فدخلت فیھا، قال: وجاء إبلیس حتی إخذ طرف ردائي، والتأمت الشجرۃ، و بقي طرف رادئي خارجا من الشجرۃ، وجائت بنو إسرائیل، فقال إبلیس : أما رأیتموہ دخل ھٰذہ الشجرۃ، ھٰذا طرف ردائهٖ، دخلھا بسحرہٖ، فقالوا : نحرق ھٰذہ الشجرۃ، فقال   إبلیس : شقوھا بالمشار شقا، قال : فشققت مع الشجرۃ بالمنشار، فقال له النبيﷺ : <<یا زکریا! ھل وجدت له مسا أو وجعا؟>> قال: لا، إنما وجدت ذٰلک الشجرۃ جعل اللہ روحي فیھا.قحط المدینة قحطا شدیدا، فشکوا الی عائشة رضی اللہ عنها فقالت: انظروا قبر النبي ﷺ فاجعلوا منه کوی الی السماء، حتی لا یکون بینه و بین السماء سقف، ففعلوا، فمطروا مطرا حتی نبت العشب، وسمنت الابل، حتی تفتقت من الشحم، فسمی عام الفتق
"بنی اسرائیل نے کہا کہ زکریا کا الٰہ اس سے ناراض  ہوگیا ہے، آؤ ہم اپنے بادشاہ کی خاطر زکریا سے  ناراض ہوجائیں اور اسے قتل کردیں۔ وہ مجھے قتل کرنے کیلئے تلاش کرنے لگے۔ ایک شخص نے مجھے  اس بات کی اطلاع دی تو میں بھاگ نکلا۔ ابلیس ان لوگوں کے آگے آگے تھا اور میرے بارے میں ان کو بتا رہا تھا۔ جب مجھے خوف ہوا کہ میں مزید نہیں بھاگ پاؤں گا تو ایک درخت میرے سامنے آکر کہنے لگا : میرے پاس آجاؤ۔ یہ کہہ کر اس کا تنا پھیل گیا۔ میں اس میں داخل ہونے لگا۔ اتنی دیر میں ابلیس نے آکر میری چادر کا ایک کونہ پکڑلیا۔ اسی دوران درخت کا تنا لپٹ گیا اور میری چادر کا کونہ درخت سے باہر ہی رہ گیا۔ جب بنی اسرائیل آئے تو ابلیس ان سے کہنے لگا : کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ زکریا اپنے جادو کے ذریعے اس درخت میں داخل ہوگیا ہے۔ یہ رہا اس کی چادر کا کونہ! بنی اسرائیل کہنے لگے کہ ہم اس درخت کو جلائیں گے۔ ابلیس نے کہا: اسے آرے سے چیر دو۔ یوں آرے سے مجھے درخت کے ساتھ ہی چیر دیا گیا۔ نبی اکرم ﷺ نے سیدنا زکریا  سے پوچھا : کیا اس سے آپ کو کوئی گزند یا تکلیف پہنچی؟  سیدنا زکریا  نے فرمایا: نہیں مجھے تو یوں لگا کہ میری روح اللہ تعالیٰ نے درخت ہی میں ڈال دی تھی۔"
 (تاریخ دمشق لابن عساکر: ۵۶/۱۹)

موضوع (من گھڑت):
 یہ جھوٹی روایت ہے؛
٭ اس کوگھڑنے کا سہرا اسحاق بن بشر بن محمد بن عبد اللہ، ابو حذیفہ، بخاری کے سر ہے، جو کہ "متروک" اور "کذاب" راوی ہے۔ (دیکھیں: میزان الاعتدال للذھبي: ۱۸۴/۱ ۔ ۱۸۶)
تنبیہ: سیدنا زکریا  سے منسوب اسی طرح کا واقعہ کچھ تابعین سے بھی بیان کیا گیا ہے، ان سے مروی روایات کا حال بھی ملاحظہ فرمائیں:
٭سعید بن مسیّب والی روایت (تاریخ دمشق: ۲۰۷/۶۴) میں علی بن زید بن جدعان راوی "ضعیف" ہے۔
٭وہب بن منبہ والی روایت (تاریخ دمشق: ۵۵/۱۹) میں عبد المنعم بن ادریس راوی موجود ہے جوکہ بااتفاقِ محدثین "متروک" اور "کذاب" ہے۔ نیز اس کا باپ ادریس بن سنان، ابو الیاس صنعانی بھی"ضعیف" ہے۔
٭اسی طرح محمد بن اسحاق بن یسار کی بیان کردہ روایت (تاریخ طبری: ۵۳۶/۱) محمد بن حمید رازی کے غیر معتبر ہونے کی وجہ سے" ضعیف" ہے۔
 معلوم ہوا کہ بعض الناس کا یہ مشہور کرنا کہ سیدنا زکریا  نے درخت سے پنا ہ مانگی تھی، سفید جھوٹ ہے۔

٭ قبر نبی ﷺ کا وسیلہ


نبی  ﷺ کی قبر  کی چھت میں سوراخ  کرنے سے مدینہ میں خوشحالی
(وسیلہ کی من گھڑت دلیل)
 
ابوا الجوزاء اوس بن عبد اللہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطاً شَدِيداً ، فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ : انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لاَ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ . فَفَعَلُوا ، فَمُطِرْنَا مَطَراً حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ ، حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ ، فَسُمِّىَ عَامَ الْفَتْقِ
"مدینہ والےشدید  قحط کا شکار ہوگئے تو انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا تو انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی قبر کی طرف دیکھو (جاؤ) اور اس میں سے آسمان کی طرف کچھ سوراخ بنادو حتیٰ کہ ان پر کوئی پردہ نہ ہو، انہوں نے ایسے ہی کیا تو ان پر خوب بارش ہوئی حتیٰ کہ گھاس اگ آئی اونٹ اس قدر فربہ ہوگئے کہ وہ چربی سے پھول گئے اور اس سال کا نام عام الفتق یعنی (خوشحالی کا سال) رکھا گیا۔"
(دارمی: ۴۳/۱ ۔ ۴۴ح۹۳)


ضعیف:  اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ:
۱:  اس کے راوی عمرو بن مالک النکری (ثقہ) کی حدیث ابو الجوزاء سے غیر محفوظ ہوئی ہے، یہ روایت بھی اسی سے ہے۔
٭حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: وقال ابن عدی (الکامل: ۴۱۱): حدّث عنه عمرو بن مالک قدر عشرۃ  أحادیث غیر محفوظة.
"امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ ابو الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔" (تھذیب التھذیب لابن حجر: ۳۳۶/۱)
یہ جرح مفسر ہے، یہ حدیث بھی عمرو بن مالک النکری نے اپنے استاد ابو الجوزاء سے روایت کی ہے ، لہٰذاغیر محفوظ ہے۔
٭امام ابن تیمیہ﷫نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا: ليس بصحيح، لا يثبت إسناده (الرد على البكري ۱۶۳/۱)
٭امام ناصر الدین الالبانی نے اس حدیث کے متعلق فرمایا: لا يصح ( أحکام الجنائز ۳۳۵)
تخریج مشکاة المصابيح ۵۸۹۴ میں فرمایا: إسناده ضعيف
التوسل صفحہ ۱۲۸ میں فرمایا: ضعیف الإسناد موقوف

Saturday, March 14, 2015

٭ امت کا اختلاف رحمت



اِخْتِلَاف أُمَّتِي رَحْمَة
" میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔"

Ummat ka Ikhtalaaf Rehmat Hai


لا أصل له (اس کی کوئی اصل نہیں) : اس روایت کی کچھ اصل نہیں ہے !
٭محدثین نے اس کی سند معلوم کرنے کی بسیار کوشش کی لیکن انہیں اس کی سند پر اطلاع نہ ہو سکی یہاں تک کہ امام سیوطی رحمة اللہ نے مایوسی کے عالم میں کہہ دیا :"شائد اس حدیث کی تخریج حفاظ کی بعض ایسی کتب میں ہے جن تک ہماری رسائی نہیں ہو پائی۔" (بحوالہ : الجامع الصغیر)
٭ لیکن امام سیوطی (رحمة اللہ) کے اس قول پر تنقید کرتے ہوئے علامہ البانی (رحمة اللہ) کہتے ہیں :
"امام سیوطی کی یہ بات عقل و دانش سے بہت بعید ہے۔ اس لیے کہ اگر امام سیوطی کے اس قول کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ امتِ مسلمہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث پر اطلاع نہیں ہو سکی جبکہ کسی مسلمان کے لیے لائق نہیں کہ وہ اس قسم کا عقیدہ اختیار کرے۔"
٭ امام مناوی (رحمة اللہ) نے امام سبکی (رحمة اللہ) سے نقل کیا ہے :
"انہوں نے بیان کیا کہ یہ حدیث محدثین کے ہاں معروف نہیں ہے اور مجھے اس کی صحیح ، ضعیف اور موضوع سند پر آگاہی حاصل نہیں ہو سکی ہے ، چانچہ شیخ زکریا انصاری نے "تفسیر بیضاوی" ( ق / 92 / 2) کے حواشی میں اس کا اعتراف کیا ہے۔"
یہ حدیث مفہوم کے لحاظ سے بھی محققین علماء کے نزدیک محل انکار میں ہے۔
علامہ ابن حزم (رحمة اللہ) نے "الاحکام فی اصول الاحکام" (5 / 64) میں اس روایت کا انکار کرتے ہوئے اور اس کو باطل اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس پر بھرپور تنقید کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ : "امت کے اختلاف کو رحمت کہنا نہایت ہی فاسد قول ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر "اختلافِ امت" رحمت ہے تو "اتفاقِ امت" اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوگا (جبکہ کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں) ، اس لیے کہ اتفاق کے مقابلے میں اختلاف ہے اور رحمت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ اور جب اختلافِ امت رحمت ہے تو اس کی نقیض لازماً یہ ہوگی کہ اتفاقِ امت میں اللہ کی ناراضگی ہے۔"
٭ علامہ البانی فرماتے ہیں :
ارشاد
باری تعالیٰ ہے : "اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے." ( سورة النسآء : 4 ، آیت : 82 )
اس آیت میں صراحت موجود ہے کہ اختلاف اللہ پاک کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر شریعت میں اختلاف ہے تو کیسے وہ شریعت اس لائق ہو سکتی ہے کہ اس پر چلا جائے؟ اور کیسے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا نزول قرار دیا جا سکتا ہے؟شریعتِ اسلامیہ میں اختلاف مذموم ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اختلاف سے بچاؤ ضروری ہے اس لیےکہ اختلافِ امت سے مسلمانوں میں ضعف و اضمحلال نمودار ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے :
آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ( سورة الأنفال : 8 ، آیت : 46 )
لیکن اختلاف کو مستحسن گرداننا اور اس کو رحمت قرار دینا درج بالا دونوں آیات قرآنیہ کے خلاف ہے جن میں اختلاف کی صراحتاً مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اختلاف کو باعثِ رحمت سمجھنے والوں کے ہاں اس روایت کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے جس کا اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

Thursday, March 12, 2015

٭ نمازِ جمعہ سے قبل ناخن کاٹنا

Zaeef Hadiths, Weak and Fabricated Hadiths, silsala Ahadees az Zaeefa, ضعیف احادیث، جھوٹی احادیث

 
من قلم أظافیرہ یوم الجمعة قبل الصلاۃِ، أخرج اللہ منه کلَّ داء، وأدخل مکانَه الشفاء و الرَّحمة
"جس نے جمعہ کے دن نماز جمعہ  سے قبل ناخن کاٹے، اللہ اس سے ہر بیماری کو دور فرما دیتا ہے، اور اس کے گھر میں شفا اور رحمت داخل کردیتا ہے۔"
(أبو نعيم "أخبار أصبھان ": ۲۴۷/۱)

سخت ضعیف: یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ :
۱: اس کا راوی طلحہ بن عمر "متروک" ہے۔(تقریب التہذیب: ۳۰۳۰)
٭ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لا شيء متروک" ،  ٭ ابن معین رحمہ اللہ نے اسے  "ضعیف" قرار دیا ہے۔  ٭ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے کہا: "لیس بالقوی لین الحدیث عندھم"، ٭امام ابو زرعہ الرازی رحمہ  اللہ نے بھی اسے "ضعیف" قرار دیا ہے۔  (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:۲۰۹۷)
٭ مزید دیکھئے: ( سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة : ۲۰۲۱)

فائدہ:ناخن کاٹنے (تراشنے) سنت ہیں۔ اور ان کو کاٹنے کے لئے کوئی دن یا مخصوص طریقہ نبی کریم سے ثابت نہیں ہے۔ جس طرح آسانی ہو آپ تراش سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ چالیس دن مدت ہے۔ اس سے زیادہ دن گزرنے پر ناخن نہ تراشنا گناہ ہے۔

ناخن تراشنا فطرت ہے:سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"پانچ چیزیں فطرت ہیں؛ ۱: ختنہ  ۲: زیر ناف بالوں کی صفائی   ۳: مونچھیں ہلکی کرنا   ۴: ناخن تراشنا    ۵: بغلوں کے بال اکھاڑنا۔" (صحیح البخاری: ۵۸۹۱، صحیح مسلم: ۲۵۷)

چالیس دن کے اندر ناخں تراشنا: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"رسول اکرم ﷺ نے ہمارے لیے مونچھیں کاٹنے ، ناخن تراشنے،        بغلوں کے بال اکھاڑنے اور  زیر ناف بالوں کی صفائی کا (زیادہ سے زیادہ) وقت چالیس دن مقرر فرمایا۔" (صحیح مسلم: ۲۵۸)
چالیس دنوں سے زیادہ ناخن نہ تراشنا حرام و ناجائز ہے، کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کے حکم اور سنت کی مخالفت ہے، جو سراسر ہلاکت و بربادی کا باعث ہے۔

ناخن تراشنا سنت ہے:سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مونچھیں کاٹنا، بغلوں کے بال اکھڑنا اور ناخن تراشنا (واجبی) سنت ہے۔" (السنن الکبریٰ للبیھقي: ۱۴۹/۱، وسندہ صحیح)

٭ شبِ جمعہ سورۂ الدخان کی تلاوت

Daeef Hadiths, Zaeef Hadees, ضعیف حدیث، موضوع حدیث، سلسلة الأحادیث الضعیفة

شبِ جمعہ سورۂ الدخان کی تلاوت
 
مَنْ قَرَأَ ﴿حٰم الدُّخَانَ  فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ غُفِرَ لَهُ
"جو شخص شب جمعہ کو سورۂ دخان کی تلاوت کرتا ہے تو اسے بخش دیا جاتا ہے۔"
(ترمذی: ۲۸۸۹)

سخت ضعیف: یہ روایت سخت ضعیف ہے، کیونکہ:
۱: اس کا راوی ہشام بن زیاد أبو المقدام "متروک" ہے۔ (تقریب التہذیب: ۷۲۹۲)
٭امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " ہشام ابو المقدام کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔"
٭ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف  کہا ہے۔ (الضعيفة : 4632،  المشكاة : 2150 /التحقيق الثاني،  ضعيف الجامع الصغير :5767)
٭مزید دیکھئے: الفوائد المجموعة (ص۳۰۲) اور اللآلی المصنوعة (۲۱۵/۱)