تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Saturday, March 14, 2015

٭ امت کا اختلاف رحمت



اِخْتِلَاف أُمَّتِي رَحْمَة
" میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔"

Ummat ka Ikhtalaaf Rehmat Hai


لا أصل له (اس کی کوئی اصل نہیں) : اس روایت کی کچھ اصل نہیں ہے !
٭محدثین نے اس کی سند معلوم کرنے کی بسیار کوشش کی لیکن انہیں اس کی سند پر اطلاع نہ ہو سکی یہاں تک کہ امام سیوطی رحمة اللہ نے مایوسی کے عالم میں کہہ دیا :"شائد اس حدیث کی تخریج حفاظ کی بعض ایسی کتب میں ہے جن تک ہماری رسائی نہیں ہو پائی۔" (بحوالہ : الجامع الصغیر)
٭ لیکن امام سیوطی (رحمة اللہ) کے اس قول پر تنقید کرتے ہوئے علامہ البانی (رحمة اللہ) کہتے ہیں :
"امام سیوطی کی یہ بات عقل و دانش سے بہت بعید ہے۔ اس لیے کہ اگر امام سیوطی کے اس قول کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ امتِ مسلمہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث پر اطلاع نہیں ہو سکی جبکہ کسی مسلمان کے لیے لائق نہیں کہ وہ اس قسم کا عقیدہ اختیار کرے۔"
٭ امام مناوی (رحمة اللہ) نے امام سبکی (رحمة اللہ) سے نقل کیا ہے :
"انہوں نے بیان کیا کہ یہ حدیث محدثین کے ہاں معروف نہیں ہے اور مجھے اس کی صحیح ، ضعیف اور موضوع سند پر آگاہی حاصل نہیں ہو سکی ہے ، چانچہ شیخ زکریا انصاری نے "تفسیر بیضاوی" ( ق / 92 / 2) کے حواشی میں اس کا اعتراف کیا ہے۔"
یہ حدیث مفہوم کے لحاظ سے بھی محققین علماء کے نزدیک محل انکار میں ہے۔
علامہ ابن حزم (رحمة اللہ) نے "الاحکام فی اصول الاحکام" (5 / 64) میں اس روایت کا انکار کرتے ہوئے اور اس کو باطل اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس پر بھرپور تنقید کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ : "امت کے اختلاف کو رحمت کہنا نہایت ہی فاسد قول ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر "اختلافِ امت" رحمت ہے تو "اتفاقِ امت" اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوگا (جبکہ کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں) ، اس لیے کہ اتفاق کے مقابلے میں اختلاف ہے اور رحمت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ اور جب اختلافِ امت رحمت ہے تو اس کی نقیض لازماً یہ ہوگی کہ اتفاقِ امت میں اللہ کی ناراضگی ہے۔"
٭ علامہ البانی فرماتے ہیں :
ارشاد
باری تعالیٰ ہے : "اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے." ( سورة النسآء : 4 ، آیت : 82 )
اس آیت میں صراحت موجود ہے کہ اختلاف اللہ پاک کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر شریعت میں اختلاف ہے تو کیسے وہ شریعت اس لائق ہو سکتی ہے کہ اس پر چلا جائے؟ اور کیسے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا نزول قرار دیا جا سکتا ہے؟شریعتِ اسلامیہ میں اختلاف مذموم ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اختلاف سے بچاؤ ضروری ہے اس لیےکہ اختلافِ امت سے مسلمانوں میں ضعف و اضمحلال نمودار ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے :
آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ( سورة الأنفال : 8 ، آیت : 46 )
لیکن اختلاف کو مستحسن گرداننا اور اس کو رحمت قرار دینا درج بالا دونوں آیات قرآنیہ کے خلاف ہے جن میں اختلاف کی صراحتاً مذمت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اختلاف کو باعثِ رحمت سمجھنے والوں کے ہاں اس روایت کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے جس کا اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔