تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Wednesday, May 13, 2015

٭ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تدفین سے پہلے قبرنبوی سے اجازت لی گئی


 ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تدفین سے پہلے  قبرنبوی سے اجازت لی گئی

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
لما حضرت أبابکر الوفاۃ أقعدني عند رأسهٖ ، وقال لي : یا علي ، إذا أنا مت ؛ فغسلني بالکف الذي غسلت بهٖ رسول اللہ ﷺ، وحنطوني ، واذھبوا بی إلی البیت الذي فیه رسول اللہ ﷺ ، فاستأذنوا ، فإن رأیتم الباب قد یفتح ؛ فادخلوا بي ،وإلا فردوني إلیٰ مقابر المسلمین ، حتیٰ یحکم اللہ بین عبادہٖ، قال: فغسل و کفن ، وکنت أول من یأذن إلی الباب ، فقلت : یا رسول اللہ، ھذا أبوبکر مستأذن ، فرأیت الباب قدتفتح ، وسمعت قائلًا یقول: أدخلوا الحبیب إلیٰ حبیبهٖ ، فإن الحبیب إلیٰ الحبیب مشتاق.
" جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا ، تو انہوں نے مجھے اپنے سر کی جانب بٹھایا۔ فرمایا: علی(رضی اللہ عنہ)! جب میں فوت ہوجاؤں، تو مجھے اس ہتھیلی سے غسل دینا، جس سے آپ نے رسول اللہ ﷺ کو غسل دیا تھا۔ پھر مجھے خوشبو لگا کر اس گھر کی طرف لے جانا، جہاں رسول اللہ ﷺ آرام فرمارہے ہیں۔ جاکر اجازت طلب کرنا۔ اگر آپ دیکھیں کہ دروازہ کھل رہا ہے، تو مجھے اندر لے جانا، ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں لے جانا، یہاں تک کے اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:انہیں غسل و کفن دیا گیا، سب سے پہلے میں نے دروازے کے پاس جاکر اجازت طلب کرتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، جو آپ سے اجازت  طلب کرتے ہیں۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ دروازہ کھلنا شروع ہوگیا۔ میں نے سنا، کوئی کہہ رہا تھا: دوست کو دوست کے پاس لے چلو، کیونکہ محبوب اپنے حبیب کی چاہت رکھتا ہے۔"


موضوع (من گھڑت): یہ جھوٹی اور باطل روایت ہے، کیونکہ اسے ذکر کرنے کے بعد:
٭حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں: ھذا منکر ، وروایه أبو الطاهر موسی بن محمد بن عطاء المقدسی و عبد الجلیل مجهول.
"یہ جھوٹی روایت ہے، اس کے راوی ابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی اور عبد الجلیل دونوں مجہول ہیں۔"
٭حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وفي إسنادہٖ أبو الطاهر موسی بن محمد بن عطاء المقدسي کذاب، عن عبد الجلیل المري، وھو مجهول.
"اس روایت کی سند میں ابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی جھوٹا، عبد الجلیل مجہول سے بیان کرتا ہے۔" (الخصائص الکبریٰ: ۴۹۲/۲)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وأبو طاھر، ھو موسی بن محمد بن عطاء، کذاب ، وعبد الجلیل مجهول.
"ابو طاہر موسی بن محمد بن عطا جھوٹا، عبد الجلیل مجہول ہے۔" (لسان المیزان: ۳۹۱/۳)
٭نیز اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:  خبرٌ باطلٌ.
"یہ روایت باطل ہے۔" (لسان المیزان: ۳۹۱/۳)
٭حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں: غریب جدًا
"یہ روایت انتہائی کمزور ہے۔" (الخصائص الکبریٰ للسیوطي: ۴۹۲/۲)