نبی کریم ﷺ کا سایہ نہیں تھا!
أنّ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لم یکن یُریٰ له ظلّ فی شمس ولا قمر
”نبی کریم ﷺ کا سایہ نہ سورج کی روشنی میں نظر آتا تھا نہ چاند کی چاندنی میں“
٭ اس روایت کی سند درج ذیل ہے: ”عبد الرحمٰن بن قیس الزّعفرانیّ عن عبد الملک بن عبد اللہ بن الولید عن ذکوان“
۱: اس کا راوی عبد الرحمٰن بن قیس الزعفرانی ”متروک و کذاب“ ہے۔ (تقریب التہذیب: ۳۹۸۹)
۲: عبد الملک بن عبد اللہ کو ملا علی قاری نے ”مجہول“ کہا ہے۔ (شرح الشفاء: ۲۸۲/۳، طبع مصر)
۳: ذکوان تابعی ہیں، اور وہ یہ روایت صحابی کے واسطے کے بغیر بیان کررہے ہیں، لہٰذا یہ ”مرسل“ ہے، اس لیے قابلِ حجت نہیں ہے۔
۳: نیز یہ روایت صحیح احادیث کے مخالف بھی ہے، جس سے نبی کریم ﷺ کے سایہ مبارک کا ثبوت ملتا ہے۔
نبی ﷺ کےسائے کےمنکرین کے عقلی دلائل کا رد
منکرینِ سایہ یہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ حضورﷺ کا سایہ اِس لیے نہیں تھا کہ اگر کسی کا حضورﷺ کے سایہ پر قد م آجا تا تو آپﷺ کی توہین ہوتی اِس لیے اﷲ نے آپﷺ کا سایہ پیدا ہی نہیں کیا ۔
جہاں تک پہلی بات کا ذکر ہے کہ آپﷺ نور تھے (حالانکہ آپ ﷺ بشر تھے)اور نور کا سایہ نہیں ہوتا، یہ سراسر غلط ہے۔نوریوں کا سایہ صحیح حدیث سے ثابت ہے جب سیّد نا جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبدﷲ رضی اللہ عنہ غزوۂ اْحد میں شہید ہوگئے تو اْن کے اہل و عیال اْن کے گرد جمع ہوکر رونے لگے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کہ جب تک تم انہیں یہاں سے اْٹھا نہیں لیتے اْس وقت تک فرشتے اِس پر اپنے پرّوں کا سایہ کیے رکھیں گے۔‘‘
اور دوسری بات بھی خلافِ واقع ہے کیونکہ سایہ پاؤں کے نیچے آہی نہیں سکتا جب کبھی کوئی شخص سائے پر پاؤں رکھے گا تو سایہ اْس کے پاؤں کے اْوپر ہوجائے گا نہ کہ نیچے ۔
لہٰذا ان عقلی اور نقلی دلائل کہ خلاف یہ بے عقلی کی اور بے سند باتیں حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔