تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Wednesday, October 29, 2014

٭ سورہ یسین قرآن کا دل ہے؟ سورہ یاسین کی فضیلت احادیث کی روشنی میں


قرآن کا دل سورۂ یسین

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ قَلْبًا وَقَلْبُ الْقُرْآنِ يس وَمَنْ قَرَأَ يس كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِقِرَاءَتِهَا قِرَاءَةَ الْقُرْآنِ عَشْرَ مَرَّاتٍ
ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یسین ہے۔ جوسورہ یاسین ایک مرتبہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس مرتبہ قرآن پڑھنے کا اجر لکھتا ہے۔

ضعیف: امام ترمذی اس روایت کو بیان کرنے کے بعد اس کے راوی ہارون ابو محمد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

وهارون أبومحمد شيخ مجهول‏.‏
۱: لہٰذا یہ روایت ہارون مذکور کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
۲: اس کے راوی قتادہ مدلس ہیں اور سماع کی تصریح نہیں ملی۔
٭ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ (المنتخب من علل الخلال،ص:۱۱۷)
٭ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ (السلسلة الضعیفة:ج۱ص۲۰۲ح۱۶۹)
٭امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع قرار دے کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی: مقاتل بن سلیمان "کذاب" ہے۔ (علل الحدیث ج۲ ص۵۶، ۵۵ح۱۶۵۲) جبکہ سنن ترمذی و سنن دارمی (ج۲ص۴۵۶ح۳۴۱۹) تاریخ بغداد (ج۴ص۱۶۷) میں مقاتل بن حیان (صدوق) ہے۔ واللہ اعلم

سورہ یاسین کی فضیلت احادیث کی روشنی میں

سیدنا ابن عباس (رضی اللہ عنہما) نے فرمایا:

جو شخص صبح کے وقت یٰسین پڑھے تو اسے شام تک آسانی عطا ہوگی۔ اور جو شخص رات کے وقت یٰسین پڑھے تو اسے صبح تک آسانی عطا ہوگی۔ (یعنی اس کے دن و رات آرام و راحت سے گزریں گے)
(سنن الدارمی: 1/ 457 ح 3422 ، دوسرا نسخہ: 3462 وسندہ حسن)
٭ اس روایت کی تحقیق پڑھنے کیلئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 1 صفحہ 496 اور 497) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

اس میں توکوئ شک وشبہ نہیں کہ سورہ  یس ایک عظيم سورۃ ہے۔ جس میں بہت ہی مؤثر قسم کے قصص اور اثربالغ رکھنے والی عبرتیں پائ جاتی ہیں، سورۃ یس میں آخرت کی دعوت جس موثر انداز میں دی گئی ہے، اس کے باعث اسے سمجھ کر بار بار پڑھنا چاہیے۔ اس سے واقعی دل پر بڑا اثر ہوتا ہے لیکن سورہ یاسین  قرآن مجید کا دل کہنا صحیح ثابت نہیں ہے۔

Tuesday, October 28, 2014

٭ قبرستان میں سورۂ یٰس کی تلاوت کرنا

قبرستان میں سورۂ یٰس کی تلاوت کرنا
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَن دَخَلَ المَقَابِرَفَقَرَأَ سُورَۃَ یَس خَفَّفَ اللہُ عَنھُم وَکَانَ لَھُم بِعَدَدِ مَن فِیھَا حَسَنَات‬
جو کوئی قبرستان میں داخل ہو اور سورۂ یٰس  تلاوت کرے تو ان قبرستان والوں سے اللہ تعالیٰ
عذاب میں تخفیف فرماتا ہے اور پڑھنے والے  کومُردوں کی تعداد کے مطابق نیکیاں ملیں گی۔
(شرح الصدور للسیوطی: ص ۴۰۴)
موضوع (من گھڑت) :یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اس کی یہ سند ذکر کی  ہے:
"أخرجه الثّعلبیّ فی تفسیرہ (۱۶۱/۳/ ۲) من طریق محمد بن أحمد الرّیاحی، حدّثنا أبی، حدّثنا أیّوب بن مدرک عن أبی عبیدۃ عن الحسن عن أنس بن مالک ۔ ۔ ۔ ۔" (السسلسة  الضعیفة: ۱۲۴۶)
1: اس کاراوی ایوب بن مدرک کو امام یحیٰ بن معین رحمہ اللہ نے "کذاب"، امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ، امام نسائی رحمہ اللہ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے "متروک"، امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ، امام یعقوب بن سفیان جوزجانی رحمہ اللہ، امام صالح بن محمد جزرہ اور امام ابنِ عدی رحمہمااللہ وغیرہم نے "ضعیف"  کہا ہے۔
٭ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ایوب بن مدرک نے امام مکحول سے ایک من گھڑت نسخہ روایت کیا ہے، ان کو دیکھا نہیں۔" (لسان المیزان لابن حجر: ۴۸۸/۱)
اس کے حق میں ادنیٰ کلمہ توثیق ثابت  نہیں۔
2: احمد بن ابی العوام الریاحی اور عبیدہ کی توثیق مطلوب ہے۔
3:امام حسن بصری رحمہ اللہ" مدلس" ہیں اور  "عن " سے روایت کررہے ہیں۔ سماع کی تصریح نہیں ہے۔
 ٭محدث البانی رحمہ اللہ نے  اس روایت کو من  گھڑت کہا ہے۔ (السلسلة الضعیفة: ۱۲۴۶)

Friday, October 24, 2014

٭ نمازِ غوثیہ

نمازِ غوثیہ

مصری قاری اور گمراہ صوفی ابو الحسن علی بن یوسف شطنوفی (۶۴۴- ۷۱۳ھ) شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی طرف منسوب عبارت یوں ذکر کرتا ہے:
"من الستعان بي في کریة کشفت عنه، ومن ناداني باسمي في شدة فرجت عنه، ومن توسل بي إلی اللہ عزوجل في حاجة قضیت له، ومن صلّٰی رکعتین، یقرأُ في کل رکعة بعد الفاتحة سورۃ الإخلاص إحدٰی عشرۃ مرۃ، ثم یصلي علٰی رسول اللہ بعد السلام ویسلم علیه، ویذکرني، ثم یخطوا إلٰی جھة العراق إحدٰی عشرۃ خطوۃ، ویذکراسمي، ویذکر حاجته، فإنه تقضٰی بإذن اللہ"
جو شخص کسی مشکل میں مجھ سے مدد مانگے، اس کی مشکل دور کردی جائے گی۔ جو مصیبت میں مجھے میرا نام لے کر پکارے، اس کی مصیبت دور کردی جائے گی اور جو کسی حاجت میں اللہ تعالیٰ کو میرا وسیلہ دے کر دعا کرے گا، اس کی حاجت پوری کردی جائے گی۔ جو شخص دو رکعتیں اس طرح پڑھے گا کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص گیارہ مرتبہ پڑھے، پھر سلام پھیرنے کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجے اور مجھے یاد کرے، پھر عراق کی طرف گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے کر اپنی ضرورت کو ذکر کرے، 
تو وہ ضروت پوری ہوجائے گی۔
(بھجة الأسرار ومعدون الأنوار، ص: ۱۰۲، فضل ذکر أصحابه وبشراھم، طبع مصر)

موضوع (من گھڑت) :یہ سفید جھوٹ ہے۔ جسے شیخ عبد القادر جیلانی سے منسوب کردیا گیا ہے۔
٭ اس  گھڑنتل کا راوی ابو المعالی عبد الرحیم بن مظفر ، جو کہ شطنوفی کا استاذ ہے، اس کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے۔ یہ کون ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔
٭ نیز اس سند میں ابو القاسم بزاز کی واضح توثیق درکار ہے۔ نامعلوم افراد کی باتوں کی دین میں کیا حیثیت ہے؟

جس کتاب میں یہ روایت مذکور ہے، اہل علم نے شطنوفی کی اس کتاب کے بارے میں بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، بلکہ اسے خرافات کا مجموعہ قرار دیا ہے، جیسا کہ:
1: حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "شیخ نور الدین شطنوفی نے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی سیرت اور حالات کے بارے میں تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے، جس میں اس نے اچھی ، بری ،صحیح، کمزور اور جھوٹی ہر طرح کی باتیں ذکر کی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے ایسے راویوں سے حکایات نقل کیں جو ہرگز سچے نہیں تھے۔" (تاریخ الإسلام: ۲۵۲/۱۲)
2: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "کمال جعفر نے کہا ہے کہ شطنوفی نے اس کتاب میں منکر اور عجیب و غریب حکایات ذکر کی ہیں۔ اہلِ علم نے اسکی بہت سی حکایات اور بہت سی سندوں پر طعن کیا ہے۔" (الدررالکامنة: ۱۴۱/۳)
3:حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "مقری ابو الحسن شطنوفی فی مصری نے شیخ عبد القادر رحمہ اللہ کے فضائل و مناقب میں تین جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی ہے اور اس میں ہر جھوٹی سچی بات لکھ ماری ہے۔ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہوتا ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو ( بغیر تحقیق) آگے بیان کر دے۔ میں نے اس کتاب کا کچھ حصہ دیکھا ہے۔ مجھے اس میں سے کسی بھی بات پر اعتماد کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ میں اس سے صرف وہ  مشہور ومعروف چیزیں نقل کروں گا جو اس کتاب کے علاوہ دوسری کتب میں مذکور ہوں گی۔ اس کتاب میں مجہول راویوں کی کثرت ہے۔ اس میں بے تکی باتوں کی بھر مار ہے، نیزز یہ جھوٹ طوفان، بلند بانگ دعووں اور باطل باتوں سے اٹی پڑی ہے۔ شیخ عبد القادر رحمہ اللہ کی طرف اس کتاب کی نسبت جائز ہی نہیں۔ پھر میں نے کمال جعفر ادفوی کی یہ بات پڑھی ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ مذکور ہے، یہ خود شطنوفی کی گھڑنت ہے۔" (ذیل طبقات الحنابلة : ۱۹۵/۲، ۱۹۴)

Thursday, October 23, 2014

٭ ایک درہم کے برابرنجاست میں نماز پڑھنا


ایک درہم کے برابرنجاست میں نماز پڑھنا

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"تُعَادُ الصَّلَاۃُ مِن قَدَرِ الدِّرھَمِ مِنَ الدَّمِ"
            خون کی ایک درہم مقدار سے نماز دہرائی جائے گی۔
(سنن الدارقطني: ۴۰۱/۱، الکامل في الضعفاء الرجال لابن عدي: ۱۳۸/۳، ت:۶۶۰، 
السنن الکبریٰ للبیھقی:۴۰۴/۲، الضعفاء الکبیر للعقیلي: ۵۶۱/۲)
موضوع (من گھڑت) :یہ جھوٹی روایت ہے، اس کو گھڑنے کی کاروائی رَوح بن غُطَیف جزری نامی راوی نے کی ہے۔ اس کے بارے میں:
1:امام بخاری رحمہ اللہ نے "منکر الحدیث" کا حکم لگایا ہے۔ (التاریخ الکبیر: ۳۰۸/۳)
2:امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ قوی نہیں، بلکہ اس کی حدیث سخت منکر ہوتی ہے" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۴۹۵/۳)
3: امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "متروک ہے" (الضعفاء والمتروکون: ۱۹۰)
4: امام دارقطنی رحمہ اللہ  نےبھی "متروک الحدیث" کہا ہے۔ (سنن دارقطنی: ۴۰۱/۱)
5: امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرکے بناوٹی اھادیث بیان کرتا تھا۔ اس کی حدیث  کو لکھنا اور اس سے روایت کرنا جائز ہی  نہیں" (کتاب المجروحین: ۲۹۸/۱)
اس پر اور بھی جروح ثابت ہیں، لیکن اس کے بارے میں ادنیٰ کلمۂ توثیق بھی ثابت نہیں۔
اس روایت کی دوسری سند:
(تاریخ بغداد للخطیب:۳۰۰/۹، الموضوعات لابن الجوزي: ۷۵/۲، نصب الرایة للزیلعي:۲۱۲/۱) بھی جھوٹی ہے۔
اس میں نوح بن ابو مریم نامی راوی ہے جو  باتفاقِ محدثین "ضعیف"، "متروک" اور کذاب ہے۔ اس میں امام زہری رحمہ اللہ کی "تدلیس" بھی موجود ہے۔ نیز اس کے راویوں ابو محمد صالح بن محمد بن نصر بن محمد عیسٰی، قاسم بن عباد ترمذی، ابو عامر اور یزید ہاشمی کے حالات بھی نہیں ملے۔
اس روایت کے بارے میں محدثینِ کرام کی آراء:
٭امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے بالکل ثابت نہیں" (الضعفاء الصغیر: ۴۵/۱، ت:۱۱۸)
نیز فرماتے ہیں: "یہ حدیث جھوٹی ہے" (الضعفاء الکبیر للعقیلي: ۵۶/۲، وسندہ صحیح)
٭امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس سند کے ساتھ یہ منکر روایت ہے" (الکامل في الضعفاء الرجال: ۱۳۸/۳)
٭امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ جھوٹی روایت ہے، اس کے جھوٹا ہونے میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں۔ نہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایا ہے، نہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ نے  اسے آپ سے روایت کیا ہے، نہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے اسے ذکر کیا ہے، نہ امام زہری رحمہ اللہ نے ایسا کہا۔ یہ اہل کوفہ کی طرف سے اسلام میں ایجاد کی گئی ایک بدعت ہے۔ ہر خلافِ سنت بات کو ترک کردیا جائے گا اور اس کے کہنے والے کو بھی چھوڑ دیا جائے گا۔" (المجروحین: ۲۹۹/۱)
٭امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "بلاشبہ یہ حدیث ثابت نہیں۔" (معرفة السنن والآثار: ۳۵۵/۲، ح:۴۹۱۰)
٭علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے "موضوعات" (من گھڑت روایات) میں ذکر کیا ہے۔ (الموضوعات: ۷۵/۲)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے "وَاہ" (کمزور) قرار دیا ہے (تنقیح التحقیق: ۱۲۹/۱)
٭حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ من گھڑت حدیث ہے۔ محدثین کرام کے نزدیک یہ بے بنیاد ہے۔" (شرح صحیح مسلم: ۹۷/۱)
 تنبیہ: نجاستِ غلیظہ مثلاً دمِ مسفوح (ذبح کے وقت بہنے والا خون)، شراب، پیشاب، پاخانہ، حیض کا خون، کتے کا پاخانہ، درندوں کا پاخانہ   وغیرہ وغیرہ اگر جسم یا کپڑے پر لگا ہو، چاہے  ایک درہم (ہتھیلی بھر) سے کم ہو یا ایک درہم سے زیادہ،  اسے صاف کیئے بغیر نماز پڑھنا جائز نہیں۔

٭ قبر نبی ﷺ سے اذان کی آواز


قبر نبی ﷺ سے اذان کی آواز

روایت نمبر ۱:
امام ابن سعد رحمہ اللہ  نقل کرتے ہیں:
"أخبرنا محمد بن عمر، قال: حدثني طلحة بن محمد بن سعید، عن أبیه، قال: کان سعید بن المسیب أیام الحرة في المسجد، ۔۔۔۔، قال: فکنت أذا حانت الصلاة أسمع أذانا یخرج من قبل القبر، حتّٰی  أمن الناس"
امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ سانحہ حرہ کے دنوں میں مسجد نبوی ہی میں مقیم تھے۔۔۔۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی اذان کا وقت ہوتا، میں قبر نبوی سے اذان کی آواز سنتا۔ جب تک امن نہ ہوگیا، یہ معاملہ جاری رہا
(الطبقات الکبریٰ: ۱۳۲/۵)
موضوع (من گھڑت) :یہ من گھڑٹ قصہ ہے، کیونکہ اس کی سند میں:
1: محمد بن عمر واقدی جمہور محدثین کرام کے نزدیک "ضعیف" اور "متروک" ہے۔
2: دوسرا راوی طلحہ بن محمد بن سعید "مجہول" ہے۔
٭اس کے بارے میں امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میں اسے نہیں جانتا۔" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۴۸۶/۴)
3:تیسرے راوی محمد بن سعید بن مسیب کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "مقبول" (مجہول الحال) قرار دیا ہے۔ (تقریب التھذیب: 5913)
تنبیہ: امام ابن حبان رحمہ اللہ نےاسے اپنی کتاب  "الثقات"  (۴۲۱/۷) میں ذکر کیا ہے، کسی معتبر امام نے اس کی توثیق نہیں کی۔

روایت نمبر ۲:
سعید بن عبد العزیز تنوخی رحمہ اللہ (م: ۹۰ھ) بیان کرتے ہیں:
سانحۂ  حرہ  کے دوران تین دن تک مسجدِ نبوی میں اذان و اقامت نہیں ہوئی تھی۔ ان دنوں امام سعید بن مسیب مسجد نبوی ہی میں مقیم تھے۔ انہیں نماز کا وقت نبی اکرم ﷺکی قبر  مبارک سے سنائی دینے والی آواز ہی سے ہوتا تھا
(مسند الدارمي: ۴۴/۱)
ضعیف: اس  کی سند "انقطاع" کی وجہ سے "ضعیف" ہے۔ سانحۂ حرہ کو بیان کرنے والے راوی سعید بن عبد العزیز تنوخی رحمہ اللہ کی پیدائش سے بہت پہلے رونما ہوچکا تھا۔ پھر سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ حرہ کا واقعہ 63 ہجری میں رونما ہوا جبکہ سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی پیدائش 90 ہجری کو ہوئی اور امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ 94 ہجری میں فوت ہوئے۔
پھر امام سعید بن مسیب مدینہ منورہ میں فوت ہوئے، جبکہ سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ شام میں پیدا ہوئے۔ اب کیسے ممکن ہے کہ سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے یہ روایت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے خود سنی ہو؟ انہیں کس شخص نے یہ بات بیان کی، معلوم نہیں۔ لہٰذا یہ روایت "انقطاع" کی وجہ سے "ضعیف" ہے۔

روایت نمبر ۳:
الطبقات الکبری لابن سعد (۱۳۱/۵)، تاریخ ابن ابی خیثمہ (۲۰۱۱) ، دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی (۵۱۰) اور مثیر العزم الساکن لابن الجوزی (۴۷۶) میں موجود روایت کی سند ضعیف ہے۔
ضعیف:  کیونکہ اس کا راوی عبد الحمید بن سلیمان مدنی جمہور محدثین کرام کے نزدیک" ضعیف" ہے۔ اس کے بارے میں:
٭امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ فضول راوی ہے" (تاریخ ابن معین بروایة العباس الدوري: ۱۶۰/۳)
٭امام علی بن مدینی رحمہ اللہ اسے "ضعیف" قرار دیا ہے۔ (سؤالات ابن أبي شیبة لعلي المدیني : ۱۱۷)
٭ امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہوتی ہے" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۱۴/۶)
٭امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ بالکل بھی محفوظ نہیں" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۱۴/۶)
٭امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے (کتاب الضعفاء والمتروکین: ۳۵۱) میں ذکر فرمایا ہے۔
٭امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے "ضعیف" قرار دیا ہے۔ (کتاب الضعفاء والمتروکین: ۳۹۷)
٭امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ کسی کام کا نہیں" (الثقات: ۵۹۲۷)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے "ضعیف" ہی قرار دیا ہے۔ (تقریب التھذیب: ۳۷۶۴)

 
روایت نمبر ۴:
حافظ ابو عبد اللہ ، محمد بن محمود ، ابن نجار رحمہ اللہ (۵۷۸- ۶۴۳ھ) نقل کرتے ہیں:
"أنبأنا ذاکر بن کامل بن أبي غالب الخفاف، فیما أذن لي في روایة عنہ، قال: کتب إلي أبو علي الحداد، عن أبي نعیم الأصبھاني، قال: أنبانا جعفر بن محمد بن نصیر: أخبرنا أبو یزید المخزومي: أخبرنا الزبیر بن بکار: حثنا محمد بن الحسن (بن زبالة): حدثني غیر واحد منھم، عن عبد العزیز بن أبي حازم، عن عمر بن محمد، أنه لما کان أیام الحرة ترک الأذان في مسجد رسول اللہ ﷺ ثلاثة أیام، وخرج الناس إلی الحرة، وجلس سعید بن المسیب في مسجد رسول اللہ ﷺ، قال: فاستو حشت، فدنوت من قبر النبيﷺ ، فلما حضرت الصلاۃ، سمعت الأذان في قبر النبي "
(الدرّہ الثمینة في أخبار المدینة ، ص: ۱۵۹)

 موضوع (من گھڑت) :یہ روایت سفید جھوٹ ہے، اس کا راوی محمد بن حسن بن زبالہ مخزومی "کذاب” اور جھوٹی حدیثیں گھڑنے کا شیدائی تھا۔
٭ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ قابل اعتماد نہیں تھا، حدیثوں کا سرقہ کرتا تھا، جھوٹا اور فضول شخص تھا۔" (تاریخ ابن معین بروایة العباس الدوری: ۵۱۰/۲، ۵۱۱)
٭امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی بیان کردہ حدیث کمزور، ضعیف اور منکر ہوتی ہے۔ اس کے پاس عجیب و غریب قسم کی روایات ہیں البتہ یہ متروک الحدیث نہیں۔" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۲۲۸/۷)
٭امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "محدثین نے اس کی روایات چھوڑ دی ہیں۔" (کتاب الضعفاء والمتروکین: ۵۳۵)
٭امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی بیان کردہ حدیث کمزور ہوتی ہے" (الجرح والتعدیل: ۲۲۸/۷)
٭امام داقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے" متروک" قراردیا ہے۔ (سؤالات البرقاني للدارقطني: ۴۲۷)
٭امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیثوں کا سرقہ کرتا تھا اور ثقہ راویوں سے بغیر تدلیس کے وہ روایت بیان کرتا تھا، جو اس نے ان سے سنی نہیں ہوتی تھیں" (المجروحین: ۲۷۵/۲)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "محدثین کے نزدیک یہ شخص جھوٹا تھا" (تقریب التھذیب: ۸۵۱۵)
نیز فرماتے ہیں: "اس کے ضعیف ہونے پر سب محدثین کا اتفاق ہے" (فتح الباری: ۲۹۸/۱۱)