تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Wednesday, August 27, 2014

٭ نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کی فضیلت

نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کی فضیلت
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من زارني في مماتي، کان کمن زارني في حیاتي، ومن زارني حتی ینتھي إلی قبري، کنت لہ شھیدًا یوم القیامۃ، أو قال: شفیعاً
"جو میری موت کے بعد میری زیارت کرے گا، اس نے گویا زندگی میں میری زیارت کی اور جو شخص میری زیارت کو آئے حتی کہ میری قبر تک پہنچ جائے، اس کے لیے میں روزِ قیامت گواہی دوں گا، یا فرمایا: سفارش کروں گا۔"
(الضعفاء الکبیر للعقیلی:457/3)

سخت ضعیف
:  اس کی سند سخت "ضعیف "اور "منکر" ہے۔
1:اس کا راوی فضالہ بن سعید بن زمیل ماربی "ضعیف" ہے۔ کسی  نے اسے "ثقہ" نہیں کہا۔ البتہ  اس کے بارے میں
٭امام
عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس کی حدیث شاذ ہے اور اس سے یہی ایک روایت مشہور ہے۔“ (الضعفاء الکبیر : 457/3)
٭حافظ ابو نعیم فرماتے ہیں: "اس نے منکر روایات بیان کی ہیں۔ یہ ناقابل التفات ہے" (لسان المیزان لابن حجر: 436/4)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے "وَاہ "(یعنی ضعیف) کہا ہے۔ (المغني فی الضعفاء:510/2)
٭حافظ ابن حجر (التلخیص الحبیر: 267/2) اور حافظ ابن ملقن (البدر المنیر: 255/3) میں اسے ضعیف کہا ہے۔
روایت سے متعلق علماء کی آراء:
٭ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ خود ساختہ روایت ہے۔" (میزان الاعتدال: 349/3، ت: 6709)
٭امام عقیلی رحمہ اللہ نے اسے "غیر محفوظ" قرار دیا ہے۔ (الضعفاء الکبیر : 457/3)

٭ چالیس حدیثیں حفظ کرنا


چالیس حدیثیں حفظ کرنا
و عن أبی الدرداء قال: سئل رسول اللہ ﷺ: ما حدّ العلم الذي إذا بلغہ الرجل کان فقیھاً؟ فقال رسول اللہ ﷺ: ((من حفظ علیٰ أمتي أربعین حدیثاً في أمر دینھا بعثہ اللہ فقیھاً و کنتُ لہ یوم القیامۃ شافعاً و شھیدًا))
سیدنا ابو الدرداء (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: علم کی وہ کون سی حد ہے جس پر پہنچ کر آدمی فقیہ بن جاتا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص میری امت کے لئے دینی امور میں چالیس حدیثیں حفظ کرے، اللہ اسے فقیہ مبعوث فرمائے گا (یعنی قیامت کے دن بطورِ فقیہ اُٹھائے گا) اور قیامت کے دن اس کے لئے شفاعت کرنے والا اور  گواہ ہوں گا۔"
(بیہقی شعب الایمان: 1726، دوسرا نسخہ: 1597)
موضوع (من گھڑت) :اس کی سند موضوع ہے۔
1: اس کا راوی عبدالملک بن ہارون بن عنترہ کذاب (جھوٹا) تھا۔
٭امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: "کذاب ہے۔" (تاریخ ابن معین،  راویۃ الدوری: 1516)
٭ حافظ ابن حبان نے کہا: "وہ حدیثیں گھڑنے والوں میں سے تھا" (کتاب المجروحین: 133/2، دوسرا نسخہ: 115/2)
٭حاکم نیشا پوری نے گواہی دی: "اس نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں بیان کیں" (المدخل الی الصحیح: ص 170ت129)
یہ روایت بھی (اس تک بشرطِ صحت) اُس نے اپنے باپ سے بیان کی، لہٰذا یہ سند موضوع ہے۔
2: امام بیہقی سے لے کر عبد الملک بن ہارون تک سند بھی صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں عبد اللہ بن نعمان البصری اور عمرو بن محمد صاحبِ یعلی بن الاشدق وغیرہما مجہول راوی ہیں۔

ائمہ و محدثین کی آراء:
٭ امام بیہقی نے فرمایا: یہ متن لوگوں کے درمیان مشہور ہے اور اس کی کوئی سند صحیح نہیں ہے۔ (شعب الایمان: 1727، دوسرا نسخہ: 1598)
٭ ابن الملقن نے کہا: اگرچہ اس کی سندیں متعدد ہیں، لیکن حفاظِ حدیث کا اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ (البر المنیر ج 7 ص 278)
٭حافظ ابن عبد البر نے فرمایا: "اور اس حدیث کی ساری سندیں ضعیف ہیں" (جامع بیان العلم و فضلہ:95/1 تھت ح 156)
تنبیہ: چونکہ بعض علمائے سابقین نے اربعین وغیرہ  اعداد پر کتابیں لکھی ہیں، لہٰذا اقتدائے سلف کی وجہ سے ایسا کرنا جائز ہے اور یہ جواز من باب الاجتہاد ہے۔ واللہ اعلم (حافظ  زبیر علی زئی رحمہ اللہ)

Monday, August 25, 2014

٭ عیسٰی علیہ السلام ہی مہدی علیہ السلام ہیں


حضرت عیسیٰ  ہی مہدی ہیں
لاَ الْمَهْدِيُّ إِلاَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ
"عیسٰی  کے علاوہ کوئی مہدی نہیں۔"
(سنن ابن ماجہ: 4039، حلیۃ الأولیاء لابي نعیم: 161/9، المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 441/4،
 جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البرّ: 155/1، تاریخ بغداد للخطیب: 221/4)
 
ضعیف: اس روایت کی سند درج ذیل ہے:حدثنا یونس بن عبد الاعلی، حدثنا محمد بن ادریس الشافعی، حدثني محمد بن خالد الجندي، عن أبان بن صالح، عن الحسن ، عن أنس بن مالک
یہ روایت تین وجہ سے ضعیف ہے:
1: اس کا راوی محمد بن خالد الجندی "مجہول" ہے۔ (تقریب التھذیب لابن حجر: 5849)
٭ اس کو امام حاکم رحمہ اللہ (تاریخ ابن عساکر: 517/47) اور امام بیہقی رحمہ اللہ (بیان خطأ للبیہقی: 299) نے "مجہول " کہا ہے۔ جبکہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اسے "متروک" کہا ہے۔ (التمھید لابن عبد البر: 39/23)
2:اس کی سند میں امام حسن بصری رحمہ اللہ "مدلس" ہیں۔ انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
3:ابان صالح نے حسن  بصری سے نہیں سنا، لہٰذا یہ سند منقطع بھی ہے۔
 
اس حدیث سے متعلق ائمہ محدثین کا فیصلہ:
٭
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام نسائی رحمہ اللہ کا یہ قول ذکر کرتے ہیں: "یہ حدیث منکر ہے۔" (العلل المتانھیة لابن الجوزي: 862/2،ح: 1447)
٭امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  "اگر یہ حدیث  اس سند کے ساتھ منکر ہے تو اس کی ذمہ داری محمد بن خالد پر پڑتی ہے۔  " (بیان خطأ للبیہقي: 299) 
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث منکر ہے۔" (میزان الاعتدال للذھبي: 535/3) 
٭علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث صحیح نہیں۔" (تفسیر القرطبي: 122/8) 
٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ روایت ضعیف ہے۔" (منھاج السنة النبویّة لابن تیمیة : 211/4)   ٭علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث ثابت نہیں۔۔۔۔۔" (المنار المنیف لابن القیم: 148) 
٭علامہ صنعانی رحمہ اللہ نے اسے "موضوع" (من گھڑت) قرار دیا ہے۔ (الفوائد المجموعة للشوکاني: ص 510)