تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Monday, June 09, 2014

٭ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا خواب

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا خواب
 
سیدناابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
"إن بلالاً  راٰی في منامه النبي (ﷺ)، وھو یقول له: "ما ھذہ الجفوۃ یا بلال ! أما اٰن لک أن تزورني یا بلال؟" فانتبه حزینا وجلا خائفا، فرکب راحلته و قصد المدینة، فاتٰی قبر النبي (ﷺ)، فجعل یبکي عنده، ویمرغ وجھه علیه، واقبل الحسن و الحسین، فجعل یضمھما ویقبلھما، فقالا له :  یابلال! نشتھي نسمع أذانک الذي کنت تؤذنه لرسول اللہ (ﷺ) في السحر، ففعل، فعلا سطح المسجد، فوقف موقفه الذي کان یقف فیه، فلما أن قال: اللہ أکبر، اللہ أکبر، ارتجت المدینة، فلما أن قال: أشھد أن لا إلہ إلا اللہ، زادتعاجیجھا، فلما أن قال: أشھد أن محمدا رسول اللہ، خرج العواتق من خدورھن، فقالوا: أبعث رسول اللہ (ﷺ)، فما رئي یوم أکثر باکیا ولا باکیة بعد رسول اللہ (ﷺ) من ذٰلک الیوم۔"
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے خواب میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: اے بلال! یہ کیا زیادتی ہے؟ کیا تمہارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری زیارت کرو؟ اس پر بلال رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے بیدار ہوئے۔ انہوں نے اپنی سواری کا رخ مدینہ منورہ کی طرف کرلیا۔ نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک پر پہنچے اور اس کے پاس رونا شروع کردیا۔ اپنا چہرہ اس پر ملنے لگے۔ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما ادھر آئے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان سے معانقہ کیا اور بوسہ دیا۔ ان دونوں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم آپ کی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے لیے کہا کرتےتھے۔ انہوں نے ہاں کردی۔ مسجد کی چھت پر چڑھے اور اپنی اس جگہ کھڑے ہوگئے جہاں دورِ نبوی میں کھڑے ہوتے تھے۔ جب انہوں نے "اللہ اکبر، اللہ اکبر" کہا تو مدینہ (رونے کی آواز سے) گونج اٹھا۔ پھر جب انہوں"أشھد أن لاإلہ إلااللہ " کہا تو آوازیں اور زیادہ ہوگئیں۔ جب وہ "أشھد أن محمدا رسول اللہ" پر پہنچے تو دو شیزائیں اپنے پردوں سے نکل آئیں اور لوگ ایسے ایک دوسرے سے پوچھنے لگے: کیا رسول اللہ ﷺ دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی نے مدینہ میں مردوں اور عورتوں کے رونے والا اس سے بڑا دن کوئی نہیں دیکھا۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر: ۱۳۷/۷ )
 
موضوع (من گھڑت): یہ روایت تاریخ دمشق لابن عساکر: ۱۳۷/۷ میں  "قال ابن عساکر: أنبأنا أبو محمد بن الأکفانی: نا عبد العزیز بن أحمد: أنا تمام بن محمد: نا محمد بن سلیمان: نا محمد بن الفیض: نا أبو إسحاق إبراھیم بن محمد بن سلیمان بن بلال بن أبی الدرداء: حدثنی أبي محمد ابن سلیمان عن أبیہ سلیمان بن بلال، عن ام الدرداء، عن أبی الدرداء، قال۔۔۔۔"
یہ روایت  گھڑنتل (من گھڑت) ہے۔
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ داستان واضح طور پر کسی کی گھڑنت ہے۔" (لسان المیزان: ۱۰۸/۱)
٭علامہ ابن الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے منسوب مذکورہ روایت ثابت نہیں۔" (الصارم المنکي في الرد علی السبکي، ص: ۳۱۴)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی سند کمزور ہے اور یہ روایت منکر ہے۔" (سیر أعلام النبلاء: ۳۵۸/۱)
٭ ابن عراق کنانی کہتے ہیں: "یہ قصہ مبینہ طور پر گھڑا ہوا ہے۔" (تنزیۃ الشریعۃ: ۵۹)
٭حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے آخری فیصلہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں : "یہ روایت غریب اور منکر ہے۔ اس کی سند مجہول اور اس میں انقطاع بھی ہے۔"
٭علامہ شوکانی یمنی نے فرمایا: "اس کی کوئی اصل نہیں۔" (الفوائد المجموعہ ص ۴۰)
٭ ملا علی قاری حنفی نے اس کے موضوع (من گھڑت ) ہونے کا حکم نقل کیا۔ (المصنوع فی معرفة الحدیث الموضوع ص ۳۹۵)
اس روایت کی سند میں کئی خرابیاں ہیں: تفصیل یہ ہے:
1: ابو اسحاق ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن ہلال کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ "مجہول " ہے۔ (تاریخ الإسلام: ۶۷/۱۷)
نیز فرماتے ہیں: "یہ نامعلوم راوی ہے۔" (میزان الاعتدال: ۶۴/۱، ت:۲۰۵)
 حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "یہ ایسا راوی ہے جس کی امانت و دیانت اور ضبط و عدالت معلوم نہیں۔ یہ مجہول ہے اور نقل روایت میں غیر معروف ہے۔ اس سے محمد بن فیض کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور اس نے بھی یہ منکر قصہ اس سے روایت کیا ہے۔" (الصارم المکي، ص :۳۱۴)
2: اس روایت کے دوسرے راوی سلیمان بن ہلال بن ابو درداء کے بارے میں حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ مجہول الحال شخص ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اسے کسی ایک بھی عالم نے معتبر قرار نہیں دیا۔" (الصارم المنکي في الرد علی السبکي، ص:۳۱۴)
3: سلیمان بن بلال کا سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے سماع بھی ثابت نہیں، یوں یہ روایت منقطع بھی ہے۔ حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کا سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے سماع بھی معلوم نہیں ہوسکا۔" (الصارم المنکي في الرد علی السبکي، ص:۳۱۴)
تنبیہ: حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی سند عمدہ ہے۔ اس میں کوئی ضعیف راوی نہیں، البتہ یہ ابراہیم نامی راوی مجہول ہے۔" (تاریخ الإسلام:۳۷۳/۵، بتحقیق بشار، وفی نسخۃ:۶۷/۱۷)
 یہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا علمی تسامح ہے۔ جس روایت کی سند میں دو راوی "مجہول" ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ انقطاع بھی ہو، وہ عمدہ کیسے ہوسکتی ہے؟
 پھر خود انہوں نے اپنی دوسر کتاب (سیر أعلام النبلاء:۳۵۸/۱) میں اس کی سند کمزور اور اس روایت کو "منکر" بھی قرار دے رکھا ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کی بات درست ہے کہ یہ قصا جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ یہ ان "مجہول" راویوں میں سے کسی کی کاروائی ہے۔ و اللہ اعلم