تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Sunday, February 09, 2014

٭ مولدِ کعبہ علی رضی اللہ عنہ



ام عارہ بنتِ عبادہ سے منسوب ہے کہ : ایک دن میں عرب عورتوں کے پاس تھی کہ ابو طالب مغموم و پریشان تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: ابو طالب! کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے: فاطمہ بنتِ اسد اس وقت سخت دردِ زِہ میں مبتلا ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لیے۔ اسی اثنا میں محمد ﷺ تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: چچا جی کیا مسئلہ ہے؟ انھوں نے بتایا: فاطمہ بنتِ اسد دردِ زِہ سے دوچار ہیں۔ ان کو کعبہ میں لا کر بٹھا دیا گیا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: اللہ کا نام لے کر بیٹھ جایئے۔ انہوں نے ایک خوش ، صاف ستھرا اور  حسین ترین بچہ جنم دیا۔ ابو طالب نے اس کا نام علی رکھ دیا۔ نبی اکرم ﷺ اس بچے کو اٹھا کر گھر لائے۔ (مناقب علی بن أبی طالب لابن المغازلی ، الرقم: 3)
موضوع (من گھڑت): یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ:
٭ اس کا راوی ابو طاہر یحییٰ بن حسن علوی کون ہے؟، کوئی پتہ نہیں۔
٭محمد بن سعید دارمی کی توثیق درکار ہے۔
٭زید بنت قریبہ کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے۔
٭ ان کی ماں ام العارہ بنتِ عبادہ کون ہے، معلوم نہیں۔
پے درپے "مجہول (نامعلوم)" راویوں کی بیان کردہ روایت کا کیا اعتبار ہوسکتا ہے؟

دوسری روایت: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ : "خانہ کعبہ میں سب سے پہلے سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بنو ہاشم میں سب سے پہلے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ " (أخبار مکۃ للفاکھی: 198/3 ، الرقم: 2018)
ضعیف: اس قول کی سند "ضعیف" ہے ، کیونکہ امام فاکہی کے استاد ابراہیم بن ابو یوسف کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے۔ شریعت نے ہمیں ثقہ معتبر راویوں کی روایات کا مکلف ٹھرایا ہے، نہ کہ مجہول اور غیر معتبر راویوں کے بیان کردہ قصے کہانیوں کا۔
تنبیہ: امام حاکم رحمہ اللہ (المستدرک: 384/3) فرماتے ہیں کہ متواتر روایات سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مولود کعبہ ہونا ثآبت ہے، لیکن  یہ بات امام صاحب رحمہ اللہ کی خطا ہے، کیونکہ متواتر تو کیا اس مفہوم کی روایات "حسن" یا "صحیح" بھی نہیں۔
رہی مؤرخین کی تصریحات ، تو وہ بھی اس کے بالکل خلاف ہیں، وہ سب یہی کہتے ہیں کہ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ پہلے اور آخری مولودِ کعبہ ہیں۔
الحاصل: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مولود کعبہ ہونا کسی معتبر دلیل سے ثابت نہیں اس بارے میں کوئی صحیح و صریح روایت ذخیرۂ  حدیث میں موجود نہیں۔(از: حافظ ابو یحیٰ نور پوری ،  ماہنامہ السنۃ جہلم: شمارہ نمبر 55 تا  60 ص 177-178)