حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ
کا اپنے دانت توڑنا
حضرت اویس
قرنی کوجناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بےحدعشق ومحبت تھی چنانچہ جب حضور
ﷺکے صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے ان سے ملاقات کی
توحضرت اویس رحمۃ اللہ نے ان سے کہاکہ آپ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
صحابی ہیں یہ بتائیے کہ جنگ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاکون سا دانت مبارک
شہیدہوا تھا۔آپ نے اتباعِ سنت میں اپنے تمام دانت کیوں نہ توڑ ڈالے ؟یہ کہہ کراپنے
تمام ٹوٹے ہوئے دانت دکھاکرکہاکہ جب دانت مبارک شہیدہوا تومیں نے اپناایک دانت توڑ ڈالا پھرخیال آیاکہ
شاید کوئی دوسرادانت شہید ہوا ہواسی طرح ایک ایک کرکے جب تمام دانت توڑ ڈالے اس
وقت مجھے سکون نصیب ہوا۔ یہ دیکھ کرحضور
ﷺکے صحابہ پررقت طاری ہوگئی ۔
من گھڑت: یہ روایت بے اصل اورمن گھڑت ہے جو کہ جاہل عوام میں مشہور ہوگئی ہے۔ محدثین کی کتابوں میں اس روایت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ درج بالا واقعہ پر تھوڑا سا اگر ہم غور کر لیں یا تھوڑی سی تحقیق کر لیں تو اس واقعے کے جھوٹا ہونے کا یقین ہو جائے گا۔ اور معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح ایک عظیم تابعی حضرت اویس قرنی رحمة اللہ پر اس طرح بہتان لگایا گیا ہے۔
سب سے
پہلی بات تو یہ کہ اس واقعے میں خود کے دانت توڑ لینے کو "اتباعِ رسول
ﷺ" سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جبکہ صاحبِ قرآن (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قرآن کی جو
تعلیم دی ہے ، اس کے مطابق ارشاد الٰہی ہے: "اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو" (سورہ بقرہ ، 195)
اور قرآن
یہ بھی کہتا ہے: "بےشک تمہارے پاس
تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت
گراں (گزرتا) ہے۔ ” (سورہ توبہ ، 128)
اپنے ہی
دانت توڑ لینا تو خود کو تکلیف و مشقت میں ڈالنا ہے جس کی قرآن ممانعت کرتا ہے اور
کہتا ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ بات گراں گزرتی ہے۔ تو کیا
وہ تابعی جو صحابہ کی جماعت کے بعد سب سے
افضل اور قرآن کو زیادہ بہتر جاننے والوں میں سے تھے ، کیا وہ اس طرح قرآن کی حکمت
کے خلاف عمل کر سکتے تھے؟