تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Monday, March 09, 2015

٭ چالیس ابدال


چالیس ابدال
 
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خیار أمّتی فی کلّ قرن خمس مأۃ، والأبدال أربعون، فلا الخمسمأۃ مکانه، وأدخل من الأربعین مکانه۔۔۔۔۔۔
"میری امت میں ہر زمانہ میں پانچ سو خیار (پسندیدہ لوگ) ہوں گے اور چالیس ابدال ۔ ان دونوں میں کمی نہ ہوگی۔ ان میں سے جو فوت ہوگا ، ان پانچ سو میں سے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے شخص کو ان چالیس میں داخل کردے گا۔۔۔"
(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی: ۸/۱ ، تاریخ ابن عساکر :۳۰۲/۱، ۳۰۳)

ضعیف: یہ روایت کئی وجوہ سے باطل ہے جیسا کہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں: موضوع، وفیه مجاھیل.
"یہ من گھڑت روایت ہے۔ اس میں کئی مجہول راوی ہیں۔" (الموضوعات لابن الجوزی : ۱۵۱/۳)
اس روایت کے باطل ہونے کی وجوہات درج ذیل ہیں:
۱:اس کا راوی سعید بن ابی زیدون کے حالات نہیں ملے۔
۲: عبد اللہ بن ہارون الصوری راوی کی توثیق نہیں مل سکی۔ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :"یہ اوزاعی سے بیان کرتا ہے اور غیر معروف راوی ہے۔اس کی طرف سے ابدال کے اوصاف میں بیان کی گئی روایت جھوٹ ہے۔" (میزان الاعتدال للذہبی : 516/2)
۳: اس میں امام زہری رحمہ اللہ کی تدلیس موجود ہے۔ سماع کی تصریح نہیں ملی۔ 

علماء کرام کی آراء: 
٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: و لیس فی ھذہ الأحادیث شی ء صحیح. "ان احادیث میں سے کوئی بھی ثابت نہیں۔" (الموضوعات لابن الجوزی: ۱۵۲/۳)
٭شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تکلّم به بعض السلف، یروی فیه عن النبیّ ﷺ حدیث ضعیف. "اس بارے میں بعض پرانے بزرگوں نے بات کی ہے۔ اس کے متعلق رسول اللہﷺ سے ایک غیر ثابت حدیث مروی ہے۔" (مجموع الفتاوی: ۳۹۴/۴)
نیز فرماتے ہیں: الأشبه أنّه لیس من کلام النبیّ ﷺ. "درست بات یہی ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا کلام نہیں ہے۔  " (مجموع الفتاوی: ۴۴۱/۱۱)
٭شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أحادیث الأبدال و الأقطاب و الأغواث  والنقباء والنجباء والأوتاد کلّھما باطلة علی رسول اللہ ﷺ. "ابدال، اقطاب، اغواث، نقباء اور اوتاد کے بارے میں تمام کی تمام احادیث خود گھڑ کر رسول اللہ ﷺ کے ذمے لگائی گئی ہیں۔" (المنار المنیف لابن القیم: ص ۱۳۶)

 
لمحہ فکریہ : "حاجی کفایت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں: اعلیٰ حضرت (احمد رضا خان بریلوی) بنارس تشریف لے گئے۔ ایک دن دو پہر کو ایک جگہ دعوت تھی۔ میں ہمراہ تھا، واپسی میں تانگے والے سے فرمایا: اس طرف فلاں مندر کے سامنے سے ہوتے ہوئے چل۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اعلیٰ حضرت بنارس کب تشریف لائے اور کیسے یہاں کی گلیوں سے واقف ہوئے اور اس مندر کا نام کب سنا؟ اس حیرت میں تھا کہ تانگہ مندر کے سامنے پہنچا، دیکھا کہ ایک سادھو مندر سے نکلا اور تانگہ کی طرف دوڑا۔ آپ نے تانگہ رُکوا دیا۔ اس نے اعلیٰ حضرت کو ادب سے سلام کیا اور کان میں کچھ باتیں ہوئیں جو میری سمجھ سے باہر تھیں، پھر وہ سادھو مندر میں چلا گیا، ادھر تانگہ بھی چل پڑا، تب میں نے عرض کی: حضور! یہ کون تھا؟ ابدالِ وقت۔ عرض کی:  مندر میں؟ فرمایا: آم کھائیے، پتے نہ گنیے۔" (اعلیٰ حضرت، اعلی سیرت از محمد رضا الحسن قادری بریلوی: ص۱۳۴)