تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Sunday, February 08, 2015

٭ امام عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی رحمہ اللہ پر رافضیت کا الزام


امام  عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی رحمہ اللہ  پر رافضیت کا الزام
 
٭ایک روایت میں آیا ہے کہ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرتے تھے۔ دیکھئے (تاریخ بغداد للخطیب: ۴۲۷/۱۴ت۷۷۸۸ وتاریخ دمشق لابن عساکر: ۱۲۹/۳۸)
تبصرہ: اس کا راوی ابو الفرج محمد بن جعفر صاحب المصلی ضعیف ہے۔ (دیکھئے تاریخ بغداد: ۱۵۵/۲، ۱۵۶)
اور ابو زکریا غلام احمد بن ابی خیثمہ مجہول الحال ہے۔
٭ایک روایت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں "انظروا إلی الأنوک" آیا ہے۔ (الضعفاء للعقیلی: ۱۱۰/۳)
تبصرہ : اس کی سند میں علی بن عبد اللہ بن المبارک الصنعانی نامعلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ اس حکایت کی سند میں ارسال یعنی انقطاع ہے۔ دیکھئے میزان الاعتدال (۶۱۱/۲) اور منقطع روایت مردود ہوتی ہے۔
٭ایک روایت میں آیا ہے کہ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا:
"ہماری مجلس کو ابو سفیان کے بیٹے کے ذکر سے خراب نہ کرو۔" (الضعفاء للعقیلی: ۱۰۹/۳)
تبصرہ:اس کی سند میں احمد بن زکریا الحضرمی اور محمد بن اسحاق بن یزید البصری دونوں نامعلوم ہیں۔
٭ایک روایت میں آیا ہے کہ امام سفیان بن عیینہ  رحمہ اللہ نےامام عبد الرزاق  رحمہ اللہ کو ﴿ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ میں سے قرار دیا۔ (الضعفاء للعقیلی: ۱۰۹/۳)
تبصرہ: اس کی سند میں احمد بن محمود الہروی نامعلوم ہے۔
مختصر یہ کہ یہ سب روایات مردود اور بشرطِ صحت منسوخ ہیں۔

امام عبد الرزاق رحمہ اللہ  اور  تشیع : تشیع کے سلسلے میں عرض ہے کہ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ کا اثنا عشری جعفری شیعہ یا رافضی ہونا قطعاً ثابت نہیں بلکہ ان کا تشیع بعض اہلِ سنت کا تشیع ہے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل سمجھتے تھے اور تمام صحابہ سے محبت کرتے تھے۔ اہل سنت کے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا عبد الرزاق تشیع میں افراط کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: میں نے اس سلسلے میں اُن (عبد الرزاق) سے کوئی بات نہیں سُنی۔ الخ (الضعفاء للعقیلی: ۱۱۰/۳، وسندہ صحیح)
امام عبد الرزاق بن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں شیخین (سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما) کی فضیلت کا قائل ہوں کیونکہ (سیدنا) علی رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے آپ پر فضیلت دی۔ الخ (الکامل لابن عدی: ۱۹۴۹/۵، وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ: ۵۴۰/۶)
امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے فرمایا: "واللہ ! ما انشرح صدري قط أن أفضّل علیاً علیٰ أبي بکر وعمر، رحم اللہ أبابکر و رحم اللہ عمر، و رحم اللہ عثمان و رحم اللہ علیاً و من لم یحبھم فما ھو بمؤمن فإن أوثق عملي حبي إیاھم رضوان اللہ علیھم و رحمته أجمعین"
اللہ کی قسم! میرے دل میں کبھی علی کو ابو بکر اور عمر(رضی اللہ عنہم) پر فضیلت دینے پر اطمینان نہیں ہوا، اللہ ابو بکر پر رحم کرے، اللہ عمر پر رحم کرے، اللہ عثمان پر رحم کرے، اللہ علی پر رحم کرے اور جو ان سب سے محبت نہیں کرتا وہ مومن نہیں ہے۔ میرا سب سے مضبوط عمل یہ  ہے کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں، اللہ ان سے راضی ہو اور ان سب پر اللہ کی رحمت ہو۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر: ۱۳۰/۳۸، وسندہ صحیح، کتاب العلل و معرفة الرجال لعبد اللہ بن احمد بن حنبل: ۲۵۶/۱ح۱۴۶۵، وسندہ صحیح)
اس سنہری قول سے معلوم ہوا کہ امام عبد الرزاق شیعہ نہیں تھے بلکہ انھوں نے تشیع یسیر سے بھی رجوع کرلیا تھا کیونکہ اس قول میں وہ چاروں خلفائے راشدین کی ترتیب اور اُن سے محبت کے قائل ہیں۔ جو شخص اس سنہری قول کے باوجودامام  عبد الرزاق کو شیعہ شیعہ کہنے کی رَٹ لگاتاہے اس کا علاج کسی دماغی ہسپتال سے کرانا چاہئے۔
تنبیہ : تشیع یسیر سے بھی امام عبر الرزاق کا رجوع ثابت ہے۔ ابو مسلم البغدادی الحافظ (ابراہیم بن عبد اللہ الکجی البصری) نے امام احمد سے نقل کیا کہ امام عبد الرزاق نے تشیع سے رجوع کرلیا تھا۔ دیکھئے تاریخ دمشق لابن عساکر (۲۹/۳۸ وسندہ حسن)
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ  سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بیان کی اور فرمایا: "وبه نأخذ" اور ہم اسی کو لیتے ہیں۔ (مصنف عبد الرزاق:ج۳ص۲۴۹ح۵۵۳۴ دوسرا نسخہ: ۵۵۵۱)
انھوں نے ایک حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی اور کہا: "وبه نأخذ" اور ہم اسی کو لیتے ہیں یعنی اسی کے قائل ہیں۔ (مصنف عبد الرزاق: ۴۹۷/۳ح۵۳۹۳ [۶۴۲۰])
سیدنا معاویہ اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی بیان کردہ احادیث پر عمل کرنے والا شیعہ (!) ساری دنیا میں کہیں نہیں ملے گا، چاہے چراغ کے بجائے آفتاب کے ذریعے سے ہی تلاش کیا جائے۔