تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Wednesday, December 10, 2014

٭ قبر نبی ﷺکی زیارت


قبر نبی ﷺ کی زیارت شفاعت کا ذریعہ
 
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ  نے فرمایا:
من زار قبري۔ أو قال: من زارني۔ کنت له شفیعا أو شھیدا، 
ومن مات في أحد الحرمین، بعث اللہ من الأمنین یوم القیامة
"جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، میں اس کے لیے شفارشی اور گواہ بنوںگا اور جو حرمین میں سے کسی حرم میں فوت ہوگا، اسے روزِ قیامت اللہ تعالیٰ امن والوں میں اٹھائے گا۔"
(مسند الطیالسي [منحة المعبود: ۲۲۸/۱]، السنن الکبریٰ للبیھقي: ۲۴۵/۵، شعب الایمان للبیھقي: ۴۸۸/۳)

ضعیف: اس کی سند باطل ہے، کیونکہ:
۱: سوار بن میمون راوی کا کتبِ رجال میں کوئی ذکر نہیں مل سکا۔
۲: رجل من آلِ عمر "مجہول" ہے۔
٭اسی لیے اس روایت کی سند کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"اس کی سند مجہول راویوں پر مشتمل ہے" (السنن الکبریٰ: ۲۴۵/۵)
٭حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی سند میں نکارت ہے" (البدر المنیر لابن الملقن: ۲۹۸/۶)
فائدہ: شعب الایمان بیہقی (۴۸۹/۳) میں یہ روایت یوں ہے:
"۔ ۔ ۔ ۔ حدثنا شعبة عن سوار بن میمون: حدثنا ھارون بن قزعة، عن رجل من آل الخطاب، عن النبي ﷺ قال: من زارني متعمدا، کان في جواري یوم القیامة، ومن سکن المدینة وصبر علیٰ  بلائھا، کنت لہ شھیداً و شفیعا یوم القیامة، ومن  مات في أحد الحرمین بعثه اللہ من الآمنین یوم القیامة"
جو شخص قصداً میری زیارت کرے گا، وہ روزِ قیامت میرے پڑوس میں ہوگا۔ جو شخص مدینہ منورہ میں رہائش اختیار کرے گا اور وہاں کی تکالیف پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دوں گا اور سفارش کروں گا اور جو شخص حرمین میں سے کسی ایک حرم میں فوت ہوگا، اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز امن والوں میں سے اٹھائیں گے۔

ضعیف:اس کی سند بھی باطل ہے، کیونکہ:
۱: اس میں وہی سوار بن میمون "مجہول" موجود ہے۔ جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔
۲: اس میں ہارون بن قزعہ بھی ہے، وہ جمہور محدثین کرام کے نزدیک "ضعیف" ہے۔
٭ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"یہ منکر الحدیث راوی ہے" (الضعفاء الکبیر للعقیلی: ۳۶۲/۴ وسندہ صحیح)
٭امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "ہارون ابو قزعہ غیر منسوب راوی ہے۔ اس نے بہت  تھوڑی روایات بیان کی ہیں، جن (کے منکر ہونے) کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے۔" (الکامل  في ضعفاء الرجال: ۱۲۸/۷)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اسے امام یعقوب بن شیبہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام عقیلی، امام ساجی اور امام ابن جارود نے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔" (لسان المیزان: ۱۸۱/۶)
٭ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے "الثقات (۵۸۰/۷)" میں ذکر کیا ہے جو کہ ان کا تساہل ہے۔ بات وہی ہے جو جمہور محدثین نے فرمائی ہے۔
۳: رجل میں آلِ الخطاب "مجہول" اور "مبہم"ہے۔
٭ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس بارے میں روایت کمزور ہے" (الضعفاء الکبیر: ۳۶۲/۴)
الحاصل: عرض ہے کہ روضۂ  رسول ﷺ کی طرف خاص طور سفر کرنا کسی صحابی، تابعی یا تبع تابعی سے ثابت نہیں ہے اور ایک حدیث میں تین مساجد کے علاوہ سفر کرنے کی ممانعت آئی ہے ، اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی نے فرمایا: "والحق عندي أن القبر و محل عبادۃ ولي من اولیاء اللہ والطور کل ذلک سواء فی النھي۔ واللہ أعلم"
اور میرے نزدیک حق یہ ہے کہ قبر، اولیاء اللہ میں سے کسی ولی کا محلِ عبادت اور کوہِ طور سب ممانعت میں برابر ہیں۔ واللہ اعلم (حجۃ اللہ البالغہ ج۱ص۱۹۲، من ابواب الصلوٰۃ)
معلوم ہوا کہ شاہ ولی اللہ کے نزدیک خاص قبر کی نیت سے سفر کرنا ممنوع ہے۔
تنبیہ: جو شخص مدینہ نبویہ جانے کی سعادت حاصل کرے تو اسے چائیے کہ مسجدِ نبوی (علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام) جاکر دو رکعتیں پڑھے اور روضہ ٔ رسول کی زیارت کرے، نماز والا درود پڑھے اور اگر حجرہ مبارکہ کا دروازہ اُس کے لئے کھل جائے اور خوش قسمتی سے وہ قبر مبارک کے پاس پہنچ جائے تو السلام علیک یا رسول اور الصلوٰۃ علیک یا رسول اللہ بھی پڑھے جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے موقوفاً ثابت ہے۔ (دیکھئے فضائلِ درود وسلام ص۱۴۱، فضل الصلوٰۃ علی النبیﷺ بتحقیق زبیر علی زئی:۱۰۰)
لیکن یاد رہے حجرۂ مبارک کے باہر تخاطب والے یہ الفاظ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین وغیرہم سے ثابت نہیں ہیں، لہٰذا باہر صرف نماز والا درود پڑھنا چاہئے۔