تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Thursday, October 23, 2014

٭ قبر نبی ﷺ سے اذان کی آواز


قبر نبی ﷺ سے اذان کی آواز

روایت نمبر ۱:
امام ابن سعد رحمہ اللہ  نقل کرتے ہیں:
"أخبرنا محمد بن عمر، قال: حدثني طلحة بن محمد بن سعید، عن أبیه، قال: کان سعید بن المسیب أیام الحرة في المسجد، ۔۔۔۔، قال: فکنت أذا حانت الصلاة أسمع أذانا یخرج من قبل القبر، حتّٰی  أمن الناس"
امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ سانحہ حرہ کے دنوں میں مسجد نبوی ہی میں مقیم تھے۔۔۔۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی اذان کا وقت ہوتا، میں قبر نبوی سے اذان کی آواز سنتا۔ جب تک امن نہ ہوگیا، یہ معاملہ جاری رہا
(الطبقات الکبریٰ: ۱۳۲/۵)
موضوع (من گھڑت) :یہ من گھڑٹ قصہ ہے، کیونکہ اس کی سند میں:
1: محمد بن عمر واقدی جمہور محدثین کرام کے نزدیک "ضعیف" اور "متروک" ہے۔
2: دوسرا راوی طلحہ بن محمد بن سعید "مجہول" ہے۔
٭اس کے بارے میں امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میں اسے نہیں جانتا۔" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۴۸۶/۴)
3:تیسرے راوی محمد بن سعید بن مسیب کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "مقبول" (مجہول الحال) قرار دیا ہے۔ (تقریب التھذیب: 5913)
تنبیہ: امام ابن حبان رحمہ اللہ نےاسے اپنی کتاب  "الثقات"  (۴۲۱/۷) میں ذکر کیا ہے، کسی معتبر امام نے اس کی توثیق نہیں کی۔

روایت نمبر ۲:
سعید بن عبد العزیز تنوخی رحمہ اللہ (م: ۹۰ھ) بیان کرتے ہیں:
سانحۂ  حرہ  کے دوران تین دن تک مسجدِ نبوی میں اذان و اقامت نہیں ہوئی تھی۔ ان دنوں امام سعید بن مسیب مسجد نبوی ہی میں مقیم تھے۔ انہیں نماز کا وقت نبی اکرم ﷺکی قبر  مبارک سے سنائی دینے والی آواز ہی سے ہوتا تھا
(مسند الدارمي: ۴۴/۱)
ضعیف: اس  کی سند "انقطاع" کی وجہ سے "ضعیف" ہے۔ سانحۂ حرہ کو بیان کرنے والے راوی سعید بن عبد العزیز تنوخی رحمہ اللہ کی پیدائش سے بہت پہلے رونما ہوچکا تھا۔ پھر سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ حرہ کا واقعہ 63 ہجری میں رونما ہوا جبکہ سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی پیدائش 90 ہجری کو ہوئی اور امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ 94 ہجری میں فوت ہوئے۔
پھر امام سعید بن مسیب مدینہ منورہ میں فوت ہوئے، جبکہ سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ شام میں پیدا ہوئے۔ اب کیسے ممکن ہے کہ سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے یہ روایت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے خود سنی ہو؟ انہیں کس شخص نے یہ بات بیان کی، معلوم نہیں۔ لہٰذا یہ روایت "انقطاع" کی وجہ سے "ضعیف" ہے۔

روایت نمبر ۳:
الطبقات الکبری لابن سعد (۱۳۱/۵)، تاریخ ابن ابی خیثمہ (۲۰۱۱) ، دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی (۵۱۰) اور مثیر العزم الساکن لابن الجوزی (۴۷۶) میں موجود روایت کی سند ضعیف ہے۔
ضعیف:  کیونکہ اس کا راوی عبد الحمید بن سلیمان مدنی جمہور محدثین کرام کے نزدیک" ضعیف" ہے۔ اس کے بارے میں:
٭امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ فضول راوی ہے" (تاریخ ابن معین بروایة العباس الدوري: ۱۶۰/۳)
٭امام علی بن مدینی رحمہ اللہ اسے "ضعیف" قرار دیا ہے۔ (سؤالات ابن أبي شیبة لعلي المدیني : ۱۱۷)
٭ امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہوتی ہے" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۱۴/۶)
٭امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ بالکل بھی محفوظ نہیں" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۱۴/۶)
٭امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے (کتاب الضعفاء والمتروکین: ۳۵۱) میں ذکر فرمایا ہے۔
٭امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے "ضعیف" قرار دیا ہے۔ (کتاب الضعفاء والمتروکین: ۳۹۷)
٭امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ کسی کام کا نہیں" (الثقات: ۵۹۲۷)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے "ضعیف" ہی قرار دیا ہے۔ (تقریب التھذیب: ۳۷۶۴)

 
روایت نمبر ۴:
حافظ ابو عبد اللہ ، محمد بن محمود ، ابن نجار رحمہ اللہ (۵۷۸- ۶۴۳ھ) نقل کرتے ہیں:
"أنبأنا ذاکر بن کامل بن أبي غالب الخفاف، فیما أذن لي في روایة عنہ، قال: کتب إلي أبو علي الحداد، عن أبي نعیم الأصبھاني، قال: أنبانا جعفر بن محمد بن نصیر: أخبرنا أبو یزید المخزومي: أخبرنا الزبیر بن بکار: حثنا محمد بن الحسن (بن زبالة): حدثني غیر واحد منھم، عن عبد العزیز بن أبي حازم، عن عمر بن محمد، أنه لما کان أیام الحرة ترک الأذان في مسجد رسول اللہ ﷺ ثلاثة أیام، وخرج الناس إلی الحرة، وجلس سعید بن المسیب في مسجد رسول اللہ ﷺ، قال: فاستو حشت، فدنوت من قبر النبيﷺ ، فلما حضرت الصلاۃ، سمعت الأذان في قبر النبي "
(الدرّہ الثمینة في أخبار المدینة ، ص: ۱۵۹)

 موضوع (من گھڑت) :یہ روایت سفید جھوٹ ہے، اس کا راوی محمد بن حسن بن زبالہ مخزومی "کذاب” اور جھوٹی حدیثیں گھڑنے کا شیدائی تھا۔
٭ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ قابل اعتماد نہیں تھا، حدیثوں کا سرقہ کرتا تھا، جھوٹا اور فضول شخص تھا۔" (تاریخ ابن معین بروایة العباس الدوری: ۵۱۰/۲، ۵۱۱)
٭امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی بیان کردہ حدیث کمزور، ضعیف اور منکر ہوتی ہے۔ اس کے پاس عجیب و غریب قسم کی روایات ہیں البتہ یہ متروک الحدیث نہیں۔" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۲۲۸/۷)
٭امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "محدثین نے اس کی روایات چھوڑ دی ہیں۔" (کتاب الضعفاء والمتروکین: ۵۳۵)
٭امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی بیان کردہ حدیث کمزور ہوتی ہے" (الجرح والتعدیل: ۲۲۸/۷)
٭امام داقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے" متروک" قراردیا ہے۔ (سؤالات البرقاني للدارقطني: ۴۲۷)
٭امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیثوں کا سرقہ کرتا تھا اور ثقہ راویوں سے بغیر تدلیس کے وہ روایت بیان کرتا تھا، جو اس نے ان سے سنی نہیں ہوتی تھیں" (المجروحین: ۲۷۵/۲)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "محدثین کے نزدیک یہ شخص جھوٹا تھا" (تقریب التھذیب: ۸۵۱۵)
نیز فرماتے ہیں: "اس کے ضعیف ہونے پر سب محدثین کا اتفاق ہے" (فتح الباری: ۲۹۸/۱۱)