تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Tuesday, May 20, 2014

٭ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیئے سورج کی واپسی


سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیئے سورج کی واپسی

سیدہ اسماء بنت عمیس  رضی اللہ عنہا سے منسوب ہے:
کان رسول اللہ ﷺ یوحی إلیہ، و رأسہ فی حجر علي، فلم یصل العصر حتّٰی غربت الشمس، فقال رسول اللہﷺ: صلیت یا علیي؟، قال :لا، فقال رسول اللہ ﷺ: اللّٰھم، إنہ کان في طاعتک و طاعۃ رسولک، فاردد علیہ الشمس،
قالت أسماء: فرأیتھا غربت، ثم رأیتھا طلعت بعد ما غربت۔
"نبی کریم ﷺ پر وحی کا نزول ہورہا تھا اور آپ ﷺ کا سر مبارک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے ، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ آپ ﷺ نے دعا کی: اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری میں مشغول تھے، ان کے لئے سورج کو لوٹا دے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: میں نے سورج کو غروب ہوتے دیکھا، پھر سورج کے غروب ہوجانے کے بعد اسے طلوع ہوتے دیکھا۔"(السنۃ لابن أبي عاصم:1323، مختصراً، مشکل الأ ثار للطحاوی:9/2، المعجم الکبیر للطبرانی:147،152/24، تاریخ دمشق لابن عساکر: 314/42)
ضعیف: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
٭ابراہیم بن حسن بن حسن بن ابی طالب کی صریح توثیق، زمانئہ تدوین حدیث میں سوائے حافظ ابن حبان کے کسی نے بھی نہیں کی اور مجہول و مستور کی توثیق میں ابن حبان متساہل تھے لہٰذا ابراہیم بن حسن مذکور مجہول الحال ہیں اور حافظ ذہبی نے انھیں ضعیف راویوں میں ذکر کیا ہے۔دیکھئے (دیوان الجعفاء و المتروکین:46/1ت169)
 ٭حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: فضیل بن مرزوق کا ابراہیم (بن حسن بن حسن) سے سماع معلوم نہیں، ابراہیم کا (اپنی ماں) فاطمہ سے اور فاطمہ کا اسماء (بنت عمیس رضی اللہ عنہا) سے سماع معلوم نہیں ہے۔ (منہاج السنہ:190/4)
اس روایت کے بارے میں جمہور ائمہ محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں:
٭ حافظ ابوبکر محمد بن حاتم بن زنجویہ بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب (إثبات إمامۃ الصدیق) میں فرماتے ہیں:
"یہ روایت سخت ضعیف اور بے اصل ہے- یہ روافض کی کارستانی ہے۔" (البدایۃ و النھایۃ لابن کثیر:87/6)
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ امام ابن مدینی رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں کہ یہ روایت بے اصل ہے۔ (البدایۃ والنھایۃ: 93/6)
٭حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث منکر ہے، اس میں کئی ایک مجہول راوی ہیں۔" (تاریخ دمشق:314/42)
٭امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس روایت میں کمزوری ہے۔" (الضعفاء الکبیر:328/3)
٭حافظ جورقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث منکر اور مضطرب ہے۔" (الأباطیل والمناکیر و الصحاح و المشاھیر: 308/1)
٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے" موضوع" (من گھڑت) قرار دیا ہے۔ (الموضوعات:356/1)
٭ حافظ محمد بن ناصر بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث من گھڑت ہے۔" (البدایۃ و النھایۃ لابن کثیر:87/6)
٭حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
"یہ روایت جھوٹی ہے، صحیح نہیں۔" (تلخیص الموضوعات: 118)
٭شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔ (منھاج السنۃ:185،195/4)
٭ محمد بن عبید طنافسی اور یعلیٰ بن عبید طنافسی رحمہما اللہ نے بھی اسے من گھڑت ہی قرار دیا ہے۔ (البدایۃ و النھایۃ لابن کثیر:93/6)
٭حافظ ابو الحجاج یوسف مزی رحمہ اللہ نے بھی اسے "موضوع" قرار دیا ہے۔ (البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر:93/6)
٭ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اسے جھوٹی روایتوں میں ذکر کیا ہے۔ (المنار المنیف:56/1)
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ روایت جمیع طرق کے ساتھ ضعیف و منکر ہے۔ اس کی کوئی ایک سند بھی شیعہ، مجہول الحال اور شیعہ و متروک راویوں سے خالی نہیں ہے۔" (البدایۃ والنھایۃ: 87/6)