تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Tuesday, December 30, 2014

٭ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر بہتانِ عظیم


سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر بہتانِ عظیم
 
 ابوجعفرسے روایت ہے کہ:
"سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ان کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ چھوٹی ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ بڑی ہوگئی ہے ، پس آپ بار بار اس سلسلے میں گفتگو فرماتے تو علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ ہم انہیں آپ کے پاس بھیج دیتے ہیں ۔          پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان (علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی) کی پنڈلی پر سے کپڑا اٹھایا، تو اس نے کہا : کپڑا چھوڑ دیجئے اگر آپ امیر المؤمنین نہ ہوتے تو میں آپ کی آنکھیں پھوڑ ڈالتی۔“
(سنن سعید بن منصور ج ۱ص ۱۴۷ ح ۵۲۱، مصنف عبدالرزاق ج ۶ ص ۱۶۳ ح ۱۰۳۵۲)
 
ضعیف: یہ روایت سعید بن منصور (سنن سعید بن منصور ج ۱ص ۱۴۷ ح ۵۲۱) او رعبدالرزاق (مصنف عبدالرزاق ج ۶ ص ۱۶۳ ح ۱۰۳۵۲) نے "سفیان عن عمرو بن دینار عن أبي جعفر قال" کی سند سے بیان کی ہے ۔اس کی سند انقطاع (منقطع ہونے) کی وجہ سے ضعیف ہے ، کیونکہ:
 ٭ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب کی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ۔ حوالے کے لئے دیکھئے ابن ابی حاتم کی المراسیل (۱۴۹)
٭امام عبدالرزاق نے المصنف (ج۶ ص۱۶۳ ح ۱۰۳۵۳) میں "ابن جریج قال: سمعت الأعمش یقول:" کی سند سے یہ قصہ بیان کیا ہے ۔اس کی سند بھی سابقہ سند کی طرح ضعیف ہے اس لئے کہ: سلیما ن بن مہران الاسدی کی سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ۔
 
فائدہ:سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر غیور صحابی قطعاً ایسا نہیں کرسکتے اور معلوم نہیں کہ ابوجعفر نے کس سے یہ بات سنی تھی؟
          باقی یہ بات درست ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ کا رشتہ مانگا اور علی رضی اللہ عنہ نے اسے قبول بھی فرمایا اور اپنی لختِ جگر کا نکاح امیر المؤمنین عمررضی اللہ عنہ سے کردیا جیساکہ بالاتفاق مروی ہے ۔

Wednesday, December 17, 2014

٭ أَنَا مَدِینَةُ العِلمِ، وَعَلِيُّ بَابُھَا

حکمت کا شہر اور اس کا دروازہ
 
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَنَا مدِینَۃُ الْحِکْمَةِ، وَ عَلِيٌّ بَابُهَا ،فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ ،فَلْيَأْتِ الْبَابَه
"میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ جو علم حاصل کرنے کا خواہاں ہو، وہ دروازے سے آئے۔“
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: ۶۷/۵، المعجم الکبیر للطبراني: ۶۵/۱۱،ح:۱۱۰۶۱،
المستدرک علی الصحیحین للحاکم:۱۲۶/۳، تھذیب الآثار للطبري:ص۱۰۵، تاریخ بغداد للخطیب:۴۸/۱۱، الموضوعات لابن الجوزي:۳۵۱/۱، المناقب للخوارزمي: ۶۹)
 
موضوع (من گھڑت) : یہ جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے، کیونکہ:
۱: اس کا راوی ابو صلت عبد السلام بن صالح "ضعیف" اور "متروک" ہے۔
۲:اس میں اعمش راوی کی "تدلیس" ہے۔
۳:اعمش یہ روایت مجاہد سے بیان کرتے ہیں:
٭امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میں نے اعمش کی مجاہد سے بیان کردہ روایات لکھی ہیں۔ وہ تمام امام مجاہد کی طرف منسوب ہیں۔ انہیں اعمش نے مجاہد سے سنا نہیں ہے۔" (مقدّمة الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم، ص:۲۴۱، وسندہ صحیح)
٭امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اعمش کا مجاہد سے سماع نہیں۔ اعمش نے جو بھی روایت مجاہد سے بیان کی  ہے، وہ مرسل اور مدلس ہے۔" (روایة ابن طھمان:۵۹)
٭امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اعمش کا مجاہد سے سماع نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر یہ مجاہد سے مدلَّس روایات بیان کرتے ہیں۔" (العلل لابن أبي حاتم:۲۱۰/۲)
۴:ابو معاویہ بھی" مدلس" ہیں اور لفظِ عن سے بیان کررہے ہیں۔
 
تنبیہ:  بعض راویوں نے اس روایت میں ابو صلت عبد السلام بن صالح کی متابعت کررکھی ہے  لیکن کوئی بھی ثقہ متابع نہیں ہےاور اس سند کا دارومدار ہی ابو صلت "متروک" پر ہے:
٭امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ ابو صلت ہروی کی ابو معاویہ سے بیان کردہ حدیث ہے۔ اس حدیث کو ابو صلت سے سرقہ کرکے کئی ضعیف راویوں نے بھی بیان کیا ہے۔" (الکامل في ضعفاءالرجال:۳۴۱/۲)
 

٭ میں علم کا شہر ہوں اور علی (رضی اللہ عنہ) اس کا دروازہ ہیں، سے متعلق آئمہ کی رائے


ائمہ دین کی رائے
 
أَنَا مَدِینَةُ العِلمِ، وَعَلِيُّ بَابُھَا

میں علم کا شہر ہوں اور علی (رضی اللہ عنہ) اس کا دروازہ ہیں۔“

عوام الناس میں مشہور ہے کہ یہ رسول اکرم ﷺ کا فرمانِ گرامی ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں، کیونکہ اصولِ محدثین کے مطابق یہ روایت پایۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔ اس کی استنادی حیثیت جاننے کے لیے اس سلسلے میں مروی روایات پر تفصیلی تحقیق "ضعیف  احادیث بلاگ" پر ملاحظہ کرنے کے ساتھ ساتھ  اس روایت کے بارے  میں ائمہ  متقدمین کے  اقوال بھی ملاحظہ فرمائیں:

٭ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وھو حدیث لیس له أصل "اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم:۹۹/۶، وسندہ صحیح)
نوٹ : امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ  سے اس حدیث کو صحیح کہنا بھی ثابت ہے۔ (تاریخ بغداد للخطیب:۳۱۵/۱۲، طبعة بشّار، وسندہ صحیح)
ہوسکتا ہے کہ یہ فیصلہ پہلے کا ہو اور کسی راوی کی صحیح حالت ظاہر ہوجانے کے بعد یہ رائے بدل گئی ہو۔ واللہ أعلم بالصواب!

٭امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وحدیث أبي  معاویة عن الأعمش، عن مجاھد، عن ابن عباس: ”أنا مدینة الحکمة، وعلي بابھا“ کم من خلق قد افتضحوا فیه۔
"ابو معاویہ سے بیان کی گئی عن الأعمش، عن مجاھد، عن ابن عباس کی سن سے یہ حدیث کہ میں حکمت کا شہر ہوں، علی اس کا دروازہ ہے۔ کتنے ہی اہل علم ہیں، جو اس میں عیب لگاتے ہیں۔" (سؤالات البرذعي: ۷۵۳/۲)

٭امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ  نے اسے "منکر" قرار دیا ہے۔ (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۲۲/۸)

٭ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ھذا حدیث غریب منکر" یہ حدیث غریب منکر ہے۔" (سنن الترمذي: ۳۷۲۳)

٭امام ابن حبان رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ھذا خبر لا أصل له  عن النبي صلی اللہ علیه وسلم۔یہ روایت نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ (المجروحین: ۹۴/۲)
 
٭امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الحدیث مضطرب، غیر ثابت "یہ حدیث مضطرب اور غیر ثابت ہے۔" (العلل: ۲۴۷/۳، ح:۳۸۶)

٭امام عقیلی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ولا یصح في ھذا المتن حدیث "اس مفہوم کی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔" (الضعفاء الکبیر : ۱۵۰/۳)

٭امام ابو جعفر مطین رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: لم یرو ھذا الحدیث عن أبي معاویة من الثقات أحد، رواہ أبو الصلت، فکذبوہ۔
"اس روایت کو ابو معاویہ سے کسی ایک ثقہ راوی  نے بھی بیان نہیں کیا۔ صرف ابو صلت ہروی نے بیان کیا ہے اور اسے محدثین کرام نے جھوٹا قرار دیا ہے۔" (تاریخ بغداد للخطیب: ۱۷۲/۷)

٭ امام ابن عدی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ھذا حدیث منکر موضوع ۔"یہ حدیث منکر و من گھڑت ہے۔" (الکامل في ضعفاء الرجال: ۱۹۲/۱)

٭حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: و کل ھذہ الروایات غیر محفوظة"اس مفہوم کی تمام روایات منکر ہیں۔" (تاریخ دمشق: ۳۸۰/۴۲)

٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ  نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔ (الموضوعات: ۵۳۳/۱)

٭حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فحدیث باطل"یہ جھوٹی حدیث ہے۔" (تھذیب الأسماء واللغات: ۴۹۰/۱)

٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والحدیث موضوع، راواہ الأعمش "یہ حدیث من گھڑت ہے، اسے اعمش نے بیان کیا ہے۔" (تاریخ الإسلام للذھبي: ۱۱۹۱/۵، بتحقیق بشار عواد معروف)

٭شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ (منھاج السنة:۵۱۵/۷، أحادیث القصاص، ص:۶۲، مجموع الفتاویٰ:۱۲۳/۱۸)
 
٭علامہ ابن طاہر رحمہ اللہ  نے بھی اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔ (تخریج أحادیث الإحیاء للعراقي:۱۸۳۰)

٭علامہ عبد الرحمٰن معلّمی رحمہ اللہ  نے بھی موضوع کہا ہے۔ (حاشیة الفوائد الجموعة للشوکاني، ص: ۳۴۹)

صرف امام حاکم رحمہ اللہ  نے اسے "صحیح الاسناد" کہا ہے۔ ان جمہور ائمہ متقدمین و متأخرین کی "تضعیف" کے مقابلے میں امام حاکم رحمہ اللہ  کی تصحیح ناقابل التفات ہے، کیونکہ وہ متساہل تھے۔ یہ بات اہل علم پر بخوبی عیاں ہے۔
بعض متأخرین اہل علم، مثلاً؛ حافظ علائی (النقد الصحیح بما اعترض من أحادیث المصابیح، ص: ۵۵)، حافظ ابن حجر (اللّآلي المصنوعة للسیوطي: ۳۳۴/۱)، حافظ سخاوی (المقاصد الحسنة: ۱۸۹) اور علامہ شوکانی (الفوائد المجموعة، ص:۳۴۹) کا اسے "حسن" قرار دینا صحیح نہیں ہے۔

الحاصل:سیدنا علی رضی اللہ عنہ دامادِ رسول، خلیفۂ چہارم اور شیر خدا ہیں۔ زبان نبوت سے انہیں بہت سے فضائل و مناقب نصیب ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو بات رسولِ اکرمﷺ سے باسند صحیح ہم تک پہنچ گئی ہے، ان کی حقیقی فضیلت و منقبت وہی ہے۔ من گھڑت، "منکر" اور "ضعیف" روایات پر مبنی پلندے کسی بھی طرح فضائل و مناقب کا درجہ نہیں پا سکتے۔ایک ایسی ہی روایت :
أَنَا مَدِینَةُ العِلمِ، وَعَلِيُّ بَابُھَا
"میں علم کا شہر ہوں اور علی (رضی اللہ عنہ) اس کا دروازہ ہیں۔”
اصولِ محدثین کے مطابق یہ روایت پایۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔ یہ حدیث اپنی تمام سندوں کے ساتھ "ضعیف و منکر"  ہے۔ حدیث ابن عباس کے تمام طرق أبو معاویة عن الأعمش، عن مجاھد سے مروی ہیں، لہٰذا یہ بھی "ضعیف و مدلَّس" ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن "جھوٹی"، "منکر" اور "ضعیف" سندوں سے مروی روایات کو فضیلت قرار دینا قطعاً صحیح نہیں۔ صحیح و ثابت فضائل ومناقب کی
روشنی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت اتنی واضح ہے کہ اسے ایسی روایات کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی، جن کو محدثین کرام نے قبول نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!


Friday, December 12, 2014

٭ دیہاتی کا نبی کریم ﷺ کی قبر سے مخاطب ہونا

Daeef Hadiths, Zaeef Hadees, ضعیف حدیث، موضوع حدیث، سلسلة الأحادیث الضعیفة

دیہاتی کا نبی کریم ﷺ کی قبر سے مخاطب ہونا
 
ابو حرب بلا ل کہتے ہیں کہ :
”ایک دیہاتی نے فریضۂ حج ادا کیا، پھر وہ مسجد نبوی کے دروازے پر آیا، وہاں اپنی اونٹنی بٹھا کر اسے باندھنے کے بعد وہ مسجد میں داخل ہوگیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ کی قبر مبارک کے پاس آیا اور آپ کے پاؤں مبارک کے پاس کھڑا ہوگیا اور کہا، السّلام علیک یا رسول اللہ!، پھر ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو سلام کیا، پھر آپ ﷺ کی قبر مبارک کی طرف بڑھا اور کہا: اے اللہ کے رسول !میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں گناہگار ہوں، اس لیے آیا ہوں تاکہ اللہ کے ہاں آپ کو وسیلہ بناسکوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے  اپنی کتاب قرآنِ مجید میں فرمایا: وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُ‌وا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ‌ لَهُمُ الرَّ‌سُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّ‌حِيمًا ﴿النساء: ۶۴﴾۔۔۔۔“
(شعب الایمان للبیھقی: ۴۹۵/۳، ح:۴۱۷۸، وفی نسخة: ۳۸۸۰)
موضوع (من گھڑت) : یہ من گھڑت روایت ہے کیونکہ:
۱: اس کی سند میں یزید بن ابان الرقاشی راوی ہے جوکہ جمہور کے نزدیک "ضعیف" ہے،
٭حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "ضعّفه الجمھور" اس کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔(مجمع الزوائد: ۱۰۵/۱۰)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے "ضعیف" قرار دیا ہے۔ (تقریب التھذیب: ۷۶۸۳)
۲:محمد بن روح بن یزید المصری کے حالات نہیں مل سکے۔
۳: ابو حرب بلال کا ترجمہ و توثیق بھی مطلوب ہے۔
۴: عمرو بن محمد بن الحسین کے حالات و توثیق درکار ہے۔
معلوم ہواکہ یہ "ضعیف" اور "مجہول" راویوں کی کارستانی ہے، جس سے دلیل لینا اہل حق کا وطیرہ نہیں۔
تنبیہ: تفسیر ابن کثیر میں سورۂ النساء آیت نمبر ۶۴ کی تفسیر میں موجود عتبی والا واقعہ بے سند  و مردود ہے۔

Wednesday, December 10, 2014

٭ قبر نبی ﷺکی زیارت


قبر نبی ﷺ کی زیارت شفاعت کا ذریعہ
 
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ  نے فرمایا:
من زار قبري۔ أو قال: من زارني۔ کنت له شفیعا أو شھیدا، 
ومن مات في أحد الحرمین، بعث اللہ من الأمنین یوم القیامة
"جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، میں اس کے لیے شفارشی اور گواہ بنوںگا اور جو حرمین میں سے کسی حرم میں فوت ہوگا، اسے روزِ قیامت اللہ تعالیٰ امن والوں میں اٹھائے گا۔"
(مسند الطیالسي [منحة المعبود: ۲۲۸/۱]، السنن الکبریٰ للبیھقي: ۲۴۵/۵، شعب الایمان للبیھقي: ۴۸۸/۳)

ضعیف: اس کی سند باطل ہے، کیونکہ:
۱: سوار بن میمون راوی کا کتبِ رجال میں کوئی ذکر نہیں مل سکا۔
۲: رجل من آلِ عمر "مجہول" ہے۔
٭اسی لیے اس روایت کی سند کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"اس کی سند مجہول راویوں پر مشتمل ہے" (السنن الکبریٰ: ۲۴۵/۵)
٭حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی سند میں نکارت ہے" (البدر المنیر لابن الملقن: ۲۹۸/۶)
فائدہ: شعب الایمان بیہقی (۴۸۹/۳) میں یہ روایت یوں ہے:
"۔ ۔ ۔ ۔ حدثنا شعبة عن سوار بن میمون: حدثنا ھارون بن قزعة، عن رجل من آل الخطاب، عن النبي ﷺ قال: من زارني متعمدا، کان في جواري یوم القیامة، ومن سکن المدینة وصبر علیٰ  بلائھا، کنت لہ شھیداً و شفیعا یوم القیامة، ومن  مات في أحد الحرمین بعثه اللہ من الآمنین یوم القیامة"
جو شخص قصداً میری زیارت کرے گا، وہ روزِ قیامت میرے پڑوس میں ہوگا۔ جو شخص مدینہ منورہ میں رہائش اختیار کرے گا اور وہاں کی تکالیف پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دوں گا اور سفارش کروں گا اور جو شخص حرمین میں سے کسی ایک حرم میں فوت ہوگا، اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز امن والوں میں سے اٹھائیں گے۔

ضعیف:اس کی سند بھی باطل ہے، کیونکہ:
۱: اس میں وہی سوار بن میمون "مجہول" موجود ہے۔ جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔
۲: اس میں ہارون بن قزعہ بھی ہے، وہ جمہور محدثین کرام کے نزدیک "ضعیف" ہے۔
٭ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"یہ منکر الحدیث راوی ہے" (الضعفاء الکبیر للعقیلی: ۳۶۲/۴ وسندہ صحیح)
٭امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "ہارون ابو قزعہ غیر منسوب راوی ہے۔ اس نے بہت  تھوڑی روایات بیان کی ہیں، جن (کے منکر ہونے) کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے۔" (الکامل  في ضعفاء الرجال: ۱۲۸/۷)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اسے امام یعقوب بن شیبہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام عقیلی، امام ساجی اور امام ابن جارود نے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔" (لسان المیزان: ۱۸۱/۶)
٭ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے "الثقات (۵۸۰/۷)" میں ذکر کیا ہے جو کہ ان کا تساہل ہے۔ بات وہی ہے جو جمہور محدثین نے فرمائی ہے۔
۳: رجل میں آلِ الخطاب "مجہول" اور "مبہم"ہے۔
٭ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس بارے میں روایت کمزور ہے" (الضعفاء الکبیر: ۳۶۲/۴)
الحاصل: عرض ہے کہ روضۂ  رسول ﷺ کی طرف خاص طور سفر کرنا کسی صحابی، تابعی یا تبع تابعی سے ثابت نہیں ہے اور ایک حدیث میں تین مساجد کے علاوہ سفر کرنے کی ممانعت آئی ہے ، اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی نے فرمایا: "والحق عندي أن القبر و محل عبادۃ ولي من اولیاء اللہ والطور کل ذلک سواء فی النھي۔ واللہ أعلم"
اور میرے نزدیک حق یہ ہے کہ قبر، اولیاء اللہ میں سے کسی ولی کا محلِ عبادت اور کوہِ طور سب ممانعت میں برابر ہیں۔ واللہ اعلم (حجۃ اللہ البالغہ ج۱ص۱۹۲، من ابواب الصلوٰۃ)
معلوم ہوا کہ شاہ ولی اللہ کے نزدیک خاص قبر کی نیت سے سفر کرنا ممنوع ہے۔
تنبیہ: جو شخص مدینہ نبویہ جانے کی سعادت حاصل کرے تو اسے چائیے کہ مسجدِ نبوی (علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام) جاکر دو رکعتیں پڑھے اور روضہ ٔ رسول کی زیارت کرے، نماز والا درود پڑھے اور اگر حجرہ مبارکہ کا دروازہ اُس کے لئے کھل جائے اور خوش قسمتی سے وہ قبر مبارک کے پاس پہنچ جائے تو السلام علیک یا رسول اور الصلوٰۃ علیک یا رسول اللہ بھی پڑھے جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے موقوفاً ثابت ہے۔ (دیکھئے فضائلِ درود وسلام ص۱۴۱، فضل الصلوٰۃ علی النبیﷺ بتحقیق زبیر علی زئی:۱۰۰)
لیکن یاد رہے حجرۂ مبارک کے باہر تخاطب والے یہ الفاظ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین وغیرہم سے ثابت نہیں ہیں، لہٰذا باہر صرف نماز والا درود پڑھنا چاہئے۔