تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Wednesday, December 17, 2014

٭ میں علم کا شہر ہوں اور علی (رضی اللہ عنہ) اس کا دروازہ ہیں، سے متعلق آئمہ کی رائے


ائمہ دین کی رائے
 
أَنَا مَدِینَةُ العِلمِ، وَعَلِيُّ بَابُھَا

میں علم کا شہر ہوں اور علی (رضی اللہ عنہ) اس کا دروازہ ہیں۔“

عوام الناس میں مشہور ہے کہ یہ رسول اکرم ﷺ کا فرمانِ گرامی ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں، کیونکہ اصولِ محدثین کے مطابق یہ روایت پایۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔ اس کی استنادی حیثیت جاننے کے لیے اس سلسلے میں مروی روایات پر تفصیلی تحقیق "ضعیف  احادیث بلاگ" پر ملاحظہ کرنے کے ساتھ ساتھ  اس روایت کے بارے  میں ائمہ  متقدمین کے  اقوال بھی ملاحظہ فرمائیں:

٭ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وھو حدیث لیس له أصل "اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم:۹۹/۶، وسندہ صحیح)
نوٹ : امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ  سے اس حدیث کو صحیح کہنا بھی ثابت ہے۔ (تاریخ بغداد للخطیب:۳۱۵/۱۲، طبعة بشّار، وسندہ صحیح)
ہوسکتا ہے کہ یہ فیصلہ پہلے کا ہو اور کسی راوی کی صحیح حالت ظاہر ہوجانے کے بعد یہ رائے بدل گئی ہو۔ واللہ أعلم بالصواب!

٭امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وحدیث أبي  معاویة عن الأعمش، عن مجاھد، عن ابن عباس: ”أنا مدینة الحکمة، وعلي بابھا“ کم من خلق قد افتضحوا فیه۔
"ابو معاویہ سے بیان کی گئی عن الأعمش، عن مجاھد، عن ابن عباس کی سن سے یہ حدیث کہ میں حکمت کا شہر ہوں، علی اس کا دروازہ ہے۔ کتنے ہی اہل علم ہیں، جو اس میں عیب لگاتے ہیں۔" (سؤالات البرذعي: ۷۵۳/۲)

٭امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ  نے اسے "منکر" قرار دیا ہے۔ (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۲۲/۸)

٭ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ھذا حدیث غریب منکر" یہ حدیث غریب منکر ہے۔" (سنن الترمذي: ۳۷۲۳)

٭امام ابن حبان رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ھذا خبر لا أصل له  عن النبي صلی اللہ علیه وسلم۔یہ روایت نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ (المجروحین: ۹۴/۲)
 
٭امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الحدیث مضطرب، غیر ثابت "یہ حدیث مضطرب اور غیر ثابت ہے۔" (العلل: ۲۴۷/۳، ح:۳۸۶)

٭امام عقیلی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ولا یصح في ھذا المتن حدیث "اس مفہوم کی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔" (الضعفاء الکبیر : ۱۵۰/۳)

٭امام ابو جعفر مطین رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: لم یرو ھذا الحدیث عن أبي معاویة من الثقات أحد، رواہ أبو الصلت، فکذبوہ۔
"اس روایت کو ابو معاویہ سے کسی ایک ثقہ راوی  نے بھی بیان نہیں کیا۔ صرف ابو صلت ہروی نے بیان کیا ہے اور اسے محدثین کرام نے جھوٹا قرار دیا ہے۔" (تاریخ بغداد للخطیب: ۱۷۲/۷)

٭ امام ابن عدی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ھذا حدیث منکر موضوع ۔"یہ حدیث منکر و من گھڑت ہے۔" (الکامل في ضعفاء الرجال: ۱۹۲/۱)

٭حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: و کل ھذہ الروایات غیر محفوظة"اس مفہوم کی تمام روایات منکر ہیں۔" (تاریخ دمشق: ۳۸۰/۴۲)

٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ  نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔ (الموضوعات: ۵۳۳/۱)

٭حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فحدیث باطل"یہ جھوٹی حدیث ہے۔" (تھذیب الأسماء واللغات: ۴۹۰/۱)

٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والحدیث موضوع، راواہ الأعمش "یہ حدیث من گھڑت ہے، اسے اعمش نے بیان کیا ہے۔" (تاریخ الإسلام للذھبي: ۱۱۹۱/۵، بتحقیق بشار عواد معروف)

٭شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ (منھاج السنة:۵۱۵/۷، أحادیث القصاص، ص:۶۲، مجموع الفتاویٰ:۱۲۳/۱۸)
 
٭علامہ ابن طاہر رحمہ اللہ  نے بھی اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔ (تخریج أحادیث الإحیاء للعراقي:۱۸۳۰)

٭علامہ عبد الرحمٰن معلّمی رحمہ اللہ  نے بھی موضوع کہا ہے۔ (حاشیة الفوائد الجموعة للشوکاني، ص: ۳۴۹)

صرف امام حاکم رحمہ اللہ  نے اسے "صحیح الاسناد" کہا ہے۔ ان جمہور ائمہ متقدمین و متأخرین کی "تضعیف" کے مقابلے میں امام حاکم رحمہ اللہ  کی تصحیح ناقابل التفات ہے، کیونکہ وہ متساہل تھے۔ یہ بات اہل علم پر بخوبی عیاں ہے۔
بعض متأخرین اہل علم، مثلاً؛ حافظ علائی (النقد الصحیح بما اعترض من أحادیث المصابیح، ص: ۵۵)، حافظ ابن حجر (اللّآلي المصنوعة للسیوطي: ۳۳۴/۱)، حافظ سخاوی (المقاصد الحسنة: ۱۸۹) اور علامہ شوکانی (الفوائد المجموعة، ص:۳۴۹) کا اسے "حسن" قرار دینا صحیح نہیں ہے۔

الحاصل:سیدنا علی رضی اللہ عنہ دامادِ رسول، خلیفۂ چہارم اور شیر خدا ہیں۔ زبان نبوت سے انہیں بہت سے فضائل و مناقب نصیب ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو بات رسولِ اکرمﷺ سے باسند صحیح ہم تک پہنچ گئی ہے، ان کی حقیقی فضیلت و منقبت وہی ہے۔ من گھڑت، "منکر" اور "ضعیف" روایات پر مبنی پلندے کسی بھی طرح فضائل و مناقب کا درجہ نہیں پا سکتے۔ایک ایسی ہی روایت :
أَنَا مَدِینَةُ العِلمِ، وَعَلِيُّ بَابُھَا
"میں علم کا شہر ہوں اور علی (رضی اللہ عنہ) اس کا دروازہ ہیں۔”
اصولِ محدثین کے مطابق یہ روایت پایۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔ یہ حدیث اپنی تمام سندوں کے ساتھ "ضعیف و منکر"  ہے۔ حدیث ابن عباس کے تمام طرق أبو معاویة عن الأعمش، عن مجاھد سے مروی ہیں، لہٰذا یہ بھی "ضعیف و مدلَّس" ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن "جھوٹی"، "منکر" اور "ضعیف" سندوں سے مروی روایات کو فضیلت قرار دینا قطعاً صحیح نہیں۔ صحیح و ثابت فضائل ومناقب کی
روشنی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت اتنی واضح ہے کہ اسے ایسی روایات کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی، جن کو محدثین کرام نے قبول نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!