تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Saturday, May 02, 2015

٭ محمد نام والے کی عزت کرو


محمد نام والے کی عزت کرو
امیر المومنین ، سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے یہ قول منسوب ہے:
إِذَا سَمَّیٗتُمُ الٗوَلَدَ مُحَمَّدًا  ؛فَأَکٗرِمُوهُ وَأَوٗسِعُوا لَهُ الٗمَجٗلِسَ ، وَلَا تُقَبِّحُوا لَهُ وَجٗھًا.
"جب تم کسی بچے کا نام محمد رکھو تو اس کی عزت کرو، اس کے لیے مجلس کشادہ رکھو اور اس کے چہرے کے عیوب بیان نہ کرو۔"
(فضائل التسمیة لابن بکیر: ۲۶)
موضوع (من گھڑت) : یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے، کیونکہ؛
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے "منکر المتن" قرار دیا ہے۔ (سیر أعلام النبلاء : ۳۸۶/۹)
نیز فرماتے ہیں: عبد اللہ بن احمد بن عامر ، عن أبیه ، عن علی الرضا ، عن آبائهٖ ، بتلک النسخة الموضوعة الباطله ، ما تنفک عن وضعهٖ أو وضع أبیه.
"عبد اللہ بن احمد بن عامر ، اپنے باپ علی رضا اور ان کے آبا واجداد سے یہ من گھڑت اور جھوٹا نسخہ بیان کرتا ہے، جو یا تو اس کی گھڑنتل ہے یا اس کے باپ کی۔" (میزان الاعتدال: ۳۹۰/۲)
٭ عبد اللہ بن احمد بن عامر کے بارے میں حسن بن علی زہری کہتے ہیں: کان أمیا، لم یکن بالمرضي.
"وہ ایک جاہل اور غیر معتبر شخص تھا۔" (سؤالات السهمي للدارقطني: ۳۳۹، تاریخ بغداد للخطیب: ۳۹۴/۹)
تنبیہ:
٭ اس روایت کی تاریخ بغداد (۹۰/۳) والی سند کے  میں ابو اسماعیل علی بن حسین، حسین بن حسن  محمد بن قاسم اور اس کے باپ سمیت سب کی توثیق نہ ہونے کی وجہ سے جھوٹی ہو من گھڑت ہے۔
٭اس کی تیسری سند مسند بزار (کشف الأستار: ۴۱۳/۲ ، ح: ۱۹۸۸) میں بھی آتی ہے۔ لیکن یہ بھی  سخت ترین"ضعیف" ہے، کیونکہ اس کے راوی غسان بن عبید اللہ راسبی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ نیز یوسف بن نافع بن عبد اللہ بن نافع راوی "مجہول الحال" ہے۔ سوائے  امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات: ۲۸۱/۹) کے کسی نے اسے "ثقہ" نہیں کہا۔



*** اہل علم کی تصریحات***
محمد نام کی فضیلت اور فوائد و برکات کے متعلق جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں، وہ ساری کی ساری جھوٹی ہیں، جیسا کہ:
٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: وقدروي في ھذا الباب أحادیث ، لیس فیها ما یصح.
"اس باب میں بیان کی جانے والی کوئی روایت صحیح نہیں۔" (الموضوعات : ۱۵۸/۱)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: وھذہٖ أحادیث مکذوبةٌ.
"یہ ساری روایتیں جھوٹی ہیں۔" (میزان الاعتدال في نقد الرجال: ۱۲۹/۱)
٭حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: و في ذٰلک جزءٌ ، کله  کذب.
"اس بارے میں پورا ایک کتابچہ ہے جو کہ سارا جھوت کا پلندہ ہے۔" (المنار المنیف فی الصحیح و الضعیف: ص ۵۲)
٭علامہ حلبی کہتے ہیں: قال بعضهم : ولم یصح في فضل التسمیة بمحمد حدیث ، وکل ماورد فیه ؛ فهو موضوع.
"بعض علما کا کہنا ہے کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں ، بلکہ اس بارے میں بیان کی جانے والی ساری روایات من گھڑت ہے۔" (إنسان العیون في سیرۃ الأمین المأمون ، المعروف به السیرۃ الحلبیّة: ۱۲۱/۱)
٭علامہ زرقانی لکھتے ہیں: وذکر بعض الحفاظ أنه لم یصح في فضل التسمیة بمحمد حدیث.
"بعض حفاط کا کہنا ہے کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں۔" (شرح الزرقانی علی مواھب اللدنیة : ۳۰۷/۷)
٭ابن عراق کنانی لکھتے ہیں: قال الأُبِّيُّ: لم یصح في فضل التسمیة بمحمد حدیث ، بل قال الحافظ أبو العباس تقی الدین الحراني : کل ما ورد فیه ؛ فهو موضوع.
"علامہ اُبّی کہتے ہیں کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی حدیث ثابت نہیں ، بلکہ حافظ ابو عباس تقی الدین حرانی (علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ) کے بقول اس بارے میں بیان کی جانے والی ساری کی ساری روایات من  گھڑت ہیں۔" (تنزیعه الشریعة المرفوعة عن الأخبار الشنیعة الموضوعة : ۱۷۴/۱)