تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Tuesday, January 27, 2015

٭ نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنا نبوی خصائل

نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنا نبوی خصائل
 
قال الامام البیھقی: أخبرنا أبو الحسن بن الفضل ببغداد، أنبأنا أبو عمرو ابن السماک، ثنا محمد بن عبد اللہ بن المنادی، ثنا أبو حذیفة، ثنا سعید بن زربی عن ثابت عن أنس، قال: من أخلاق النّبوّة تعجیل الإفطار و تأخیر السّحور ووضع یمینک علی شمالک فی الصّلاة تحت السّرّة۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
”(تین چیزیں) نبوی خصائل میں سے ہیں، روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنا، سحری کھانے میں تاخیر کرنا اور نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا۔“
(الخلافیات للبیھقی: ق۲۷ب، مختصر الخلافیات: ۳۴۲/۱)
ضعیف : یہ حدیث ضعیف ہے۔
٭امام بیہقی رحمہ اللہ اس کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "اس روایت کو بیان کرنے میں سعید بن زربی منفرد ہے، وہ قوی نہیں ہے۔"
نیز امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ "ضعیف" ہے۔ (السنن الکبری للبیھقی: ۳۸۳/۱)
٭امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں:سعید بن زربّی ضعیف الحدیث، منکر الحدیث، عندہ عجائب من المناکیر۔
 "سعید بن زربی ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے، اس کے پاس عجیب و غریب منکر روایات ہیں۔" (الجرح والتعدیل: ۲۴/۴)
٭امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں: لیس بشیء"یہ راوی کچھ بھی نہیں ہے۔" (تاریخ ابن معین: ۱۹۹/۲، الجرح والتعدیل: ۲۴/۴)
٭امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: عندہ عجائب"اس کے پاس عجیب و غریب روایات ہیں۔" (التاریخ الکبیر: ۴۷۳/۳)
٭امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں: لیس بثقة  "یہ راوی ثقہ نہیں ہے۔" (الضعفاء للنسائی: ص۵۴)
٭امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اس کو "ضعیف" کہا ہے۔ (سنن دارقطنی: ۲۴۴/۱)
نیز اس کو "متروک" بھی کہا ہے۔ (الضعفاء و المتروکین للدارقطنی: ۲۷۲)
٭امام ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں: یروی الموضوعات عن الأثبات۔"یہ ثقہ راویوں کے حوالے سے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔" (المجروحین لابن حبان: ۳۱۸/۱)
نیز انہوں نے اسے "ضعیف" بھی کہا ہے۔ (الثقات لابن حبان: ۱۱۰/۵)
٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے "ضعیف" کہا ہے۔ (التحقیق لابن الجوزی: ۲۴۶/۱)
٭حافظ عبد الحق الاشبیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: عندہ عجائب، لا یتابع علیھا، وھو ضعیف الحدیث۔ "اس کے پاس ایسی عجیب و غریب روایات ہیں، جن پر اس کی متابعت نہیں کی گئی، یہ ضعیف الحدیث ہے۔" (کتاب الأحکام الوسطی: ۳۴۲/۱)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ضعفوہ "محدثین نے اس کو ضعیف کہا ہے۔" (الکاشف: ۲۸۵/۱)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے "منکر الحدیث" اور "ضعیف" کہا ہے۔ (التقریب، فتح الباری: ۱۰۳/۲، التلخیص الحبیر: ۱۷۹/۱)
٭عینی حنفی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔ (عمدةالقاری: ۱۷۵/۵)
٭علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے اس پر جرح  ذکر کی ہے۔ (دیکھیں: نصب الرایة: ۲۸۵/۱)
٭اس کی ایک دوسری حدیث کو حافظ نووی رحمہ اللہ نے" سخت ترین ضعیف" کہا ہے۔ (خلاصة الأحکام از نووی: ۶۷۴/۲)


دوسری روایت :ابن حزم رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے تعلیقاً اور "مسند الامام زید" میں سند کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
"تین باتیں تمام انبیائے کرام کے اخلاق سے ہیں: افطاری میں جلدی کرنا، سحری میں تاخیر کرنا
 اور نماز میں دایاں ہاتھ بائیں  پر ناف کے نیچے رکھنا۔”
(مجموعہ رسائل از محمد امین اوکاڑوی: ۳۲۷/۱، حدیث اور اھلحدیث: ص ۲۷۷)

موضوع (من گھڑت): مسند الامام زید، زیدی شیعوں کی جھوٹی کتاب ہے۔
۱:اس کتاب کی سند میں عمرو بن خالد الواسطی راوی بالاتفاق "وضّاع" (یعنی جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا) اور "کذاب" ہے۔
٭امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ نے کہا ہے: وکان یضع الحدیث  "یہ جھوٹی حدیثیں گھڑتا تھا۔" (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: ۲۳۰/۶)
٭امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: کان عمرو بن خالد الواسطیّ یضع الحدیث  "عمر بن خالد الواسطی حدیثیں گھڑتا تھا۔" (أیضاً)
٭امام یحیٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں:  کذاب، غیر ثقة، ولا مأمون  "یہ کذاب تھا، ثقہ اور مامون نہیں تھا۔" (أیضاً)
٭امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: متروک الحدیث ، لیس یسوّی شیئا  "یہ متروک الحدیث ہے،یہ کسی چیز کے ہم پلہ نہیں ہے۔" (أیضاً)
٭امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں: متروک الحدیث، ذاھب الحدیث، لا یشتغل به  "یہ متروک الحدیث اور ذاہب الحدیث ہے، اس کی حدیث کے ساتھ مشغول نہ ہوا جائے۔" (أیضاً)
۲: اس کتاب کی سند کا دوسرا راوی عبد العزیز بن اسحاق بن البقال غالی شیعہ اور "ضعیف" ہے۔ (دیکھیں لسان المیزان: ۲۵/۴، تاریخ بغداد: ۴۸۵/۱)
اس کتاب میں بہت ساری من گھڑت روایات ہیں۔
معلوم ہوا کہ یہ کتاب "موضوع" اور  من گھڑت ہے، کسی سنی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس کتاب سے روایت پیش کرے۔
٭جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں: ألا إنّ الآفة فی کتابه من حیث جھالة ناقلیة
"مصیبت یہ ہے کہ اس کتاب کے ناقلین مجہول ہیں۔" (فیض الباری لابن حجر: ۲۴۱/۲)