تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Friday, December 05, 2014

٭ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا نبی ﷺ کی قبر پر آنسو بہانا


سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا نبی ﷺ کی قبر پر آنسو بہانا
 
محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں:
رأیت جابرًا رضی اللہ  عنه، وھو یبکي عند قبر رسول اللہ ﷺ ، وھو یقول: ھٰھنا تسکب العبرات، سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: "مابین قبري ومنبري روضة من ریاض الجنة "
" میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک کے پاس روتے دیکھا۔ وہ فرمارہے تھے: آنسو بہانے کی جگہ یہی ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: میری قبر اور میرے منبر کے درمیان والی جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے "
(شعب الإیمان للبیھقي: ۳۸۶۶)

سخت ضعیف : اس روایت کی سند سخت ترین  "ضعیف" ہے، کیونکہ:
۱: امام بیہقی رحمہ اللہ کا  استاذ محمد بن حسین ابو عبد الرحمٰن سلمی "ضعیف" ہے۔
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے، یہ اچھا شخص نہیں تھا۔" (میزان الاعتدال: ۵۲۳/۳)
٭انہوں نے اسے "ضعیف" بھی کہا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ: ۱۶۶/۳)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس پر جرح کی ہے۔ (الإصابة في تمییز الصحابة: ۲۵۲/۲)
٭محمد بن یوسف قطان نیشاپوری فرماتے ہیں: "یہ قابل اعتبار شخص نہیں تھا۔۔۔ یہ صوفیوں کے لیے روایات گھڑتا تھا۔" (تریخ بغداد للخطیب: ۲۴۷/۲، وسندہ صحیح)
۲: اس کے مرکزی راوی محمد بن یونس بن موسیٰ کُدَیمی کے بارے میں:
٭امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا: "اس پر حدیث گھڑنے اور چوری کرنے کا الزام ہے" (الکامل في ضعفاء الرجال: ۲۹۲/۶)
٭امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ شخص ثقہ راویوں سے منسوب کرکے خود حدیث گھڑلیتا تھا۔ شاید اس نے ایک ہزار سے زائد احادیث گھڑی ہیں۔" (کتاب المجروحین: ۳۱۳/۲)
٭امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے "متروک" قرار دیا ہے۔ (سؤالات الحاکم: ۱۷۳)
ایک مقام پر فرماتے ہیں: "کدیمی پر حدیث گھڑنے کا الزام تھا۔" (سؤالات السھمي: ۷۴)
٭امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ کے سامنے اس کی ایک روایت  پیش کی گئی تو انہوں نے فرمایا: "یہ سچے شخص کی بیان کردہ حدیث نہیں۔" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم:۱۲۲/۸)
٭حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے فرمایا: "یہ ایک متروک راوی ہے" (میزان الاعتدال:۷۴/۴، ت:۸۳۵۳)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے "ضعیف"  قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب: ۶۴۱۹)

فائدہ:٭ نافع تابعی رحمہ اللہ اپنے استاذ، صحابیٔ جلیل کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
"إن ابن عمر کان یکرہ مس قبر النبي صل اللہ علیہ وسلم"
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے۔
(جزء محمد بن عاصم الثقفي:ص۱۰۶ح۲۷، سیر أعلام النبلاء للذھبي: ۳۷۸/۱۲، وسندہ صحیح)
٭ابو حامد محمد بن محمد طوسی المعروف بہ علامہ غزالی قبروں کو چھونے اور ان کو بوسہ دینے کے بارے میں فرماتے ہیں:
"إنه عادۃ النصارٰی والیھود"
ایسا کرنا یہود و نصاریٰ کی عادت ہے۔
(إحیاء علوم الدین: ۲۴۴/۱)