تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Friday, December 05, 2014

٭ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ۵۰۰ احادیث کا صحیفہ جلادیا


Weak and Fabricated Hadiths, Zaeef Hadees, Usool e hadith, Munkreen e Hadees, Inkaar e Hadees

 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ:
جمع أبي الحديث عن رسول الله صلى الله عليه و سلم فكانت خمسمائة حديث فبات ليلة يتقلب كثيرا قالت : فغمني فقلت تتقلب لشكوى أو لشيء بلغك ؟ فلما أصبح قال : أي بنية هلمي الأحاديث التي عندك فجئته بها فدعا بنار فأحرقها وقال : خشيت أن أموت وهي عندك فيكون فيها أحاديث عن رجل ائتمنه ووثقت به ولم يكن كما حدثني فأكون قد تقلدت ذلك
"میرے  والدماجد  رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ سے احادیث جمع کی تھیں ان کی تعداد  پانچ سو (۵۰۰)  تک پہنچتی تھی۔ ایک رات(میرے والد نے) کروٹیں لیتے لیتے گزاردی، میں رنجیدہ ہوئی اور عرض کی: آپ کروٹیں لے رہے ہیں کوئی تکلیف تو نہیں یا پھر کیا وجہ ہے؟ صبح ہوئی فرمایا: اے بیٹی! احادیث کا وہ مجموعہ لاؤ جو تمہارے پاس ہے ،میں مجموعہ لائی پھر آپ رضی اللہ عنہ نے آگ منگوائی اور وہ مجموعہ جلادیا اور فرمایا مجھے خوف ہے کہ میں مرجاؤں اور یہ مجموعہ تمہارے پاس ہی رہ جائےاور اس میں وہ وہ حدیثیں بھی ہوں جن کے راوی پر میں نے بھروسہ اور اعتماد کرلیا ہو اوربات حقیقت میں یوں نہ ہو جیسے اس نے مجھے بیان کی تھی اور یوں غلط بات میں میری تقلید کی جائے"
(تذکرۃ الحفاظ ج ۱ص۵)
 
ضعیف: روایت مذکورہ کو حافظ ذہبی نے حاکم کے حوالے  سے درج ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے:"حدثني بکر بن محمد الصیرفي بمرو: أنا محمد بن موسی البربري،  أنا مفضل بن غسان، أنا علي بن صالح ، أنا موسی بن عبد اللہ بن حسنبن حسن عن أبراھیم بن عمر بن عبید اللہ التیمی: حدثني القاسم بن محمد قالت عائشة۔۔۔۔"
۱: اس کا راوی محمد بن موسیٰ بن حماد البربری مشہور اخباری علامہ تھا، لیکن روایت میں اُس کا ثقہ ہونا ثابت نہیں بلکہ:
٭امام دارقطنی نے فرمایا: "لیس بالقوي" وہ القوی نہیں ہے۔ (سوالات الحاکم للدارقطنی:۲۲۱)
۲: دوسرے راوی علی بن صالح کے بارے میں:
٭حافظ ابن کثیر نے مسندا لصدیق میں فرمایا: "وعلي بن صالح لا یعرف" اور علی بن صالح پہچانا نہیں جاتا، یعنی معروف نہیں ہے۔ (کنز العمال: ۲۹۴۶۰)
٭حافظ ابن حجر العسقلانی نے علی بن صالح المدنی کے بارے میں فرمایا: "مستور" یعنی مجہول الحال ہے۔ (تقریب التہذیب: ۴۷۵۲)
۳:اس کے تیسرے راوی موسیٰ بن عبد اللہ بن حسن بن حسن العلوی کو امام یحییٰ بن معین نے ثقہ کہا، لیکن امام بخاری، امام عقیلی اور ذہبی رحمہم اللہ نے مجروح قرار دیا، یعنی وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔
۴:اس کا چوتھا راوی ابراہیم بن عمر بن عبید اللہ التیمی ہے جس کی توثیق نامعلوم ہے۔
٭حافظ ابن کثیر نے حاکم نیشاپوری کی اس روایت کو "ھذا غریب من ھذا الوجه جداً" یہ اس کی سند سے بہت زیادہ غریب ہے، قرار دیا۔ (کنز العمال: ۲۸۶/۱۰ح۲۹۴۶۰)
٭حافظ ابن کثیر نے ایک دوسری سند ذکر کی ہے، جس میں احوص بن مفضل بن غسان نے (موسیٰ بن حماد) البربری کی ایسی مخالفت کی ہے کہ اس سند کا متصل ہونا مشکوک ہوجاتا ہے۔ (دیکھئے کنز العمال: ۲۸۵/۱۰)
الحاصل: معلوم ہوا کہ یہ روایت ظلمات کا پلندا ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے۔