عمر بن عبد العزیز رحمہ
اللہ کا قاصد کے ذریعے نبی ﷺ پر سلام بھیجنا
حاتم بن
وردان کا بیان ہے:
کان عمر بن عبد العزیز یوجه بابرید قاصدا إلی المدینة،
لیقریٔ عنه النبي صلی اللہ علیہ وسلم
" امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ایک قاصد کو
ڈاک دے کر مدینہ کی طرف روانہ کرتے
کہ وہ ان کی طرف سے نبی اکرم ﷺ کو سلام پیش کرے"
(شعب
الإیمان للبیھقي: ۳۸۶۹)
ضعیف : اس روایت کی سند "ضعیف" اور باطل ہے، کیونکہ:
۱: اس کے
راوی ابراہیم بن فراس کی توثیق نہیں ملی۔
۲: اس کا
استاذ احمد بن صالح رازی بھی "مجہول" ہے۔
٭یزید بن
ابو سعید مقبری بیان کرتے ہیں:
"قدمت علیٰ عمر بن عبد
العزیز، إذا کان خلیفة، بالشام، فلما و دعته قال: إن لي إلیک حاجة، إذا أتیت
المدینة فترٰی قبر النبي صلی ا للہ علیه
وسلم،فاقرئه مني السّلام
"
میں امام
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس شام میں گیا۔ جب میں
واپس ہونے لگا تو انہوں نے فرمایا: مجھے تم سے ایک کام ہے، وہ یہ کہ جب مدینہ
منورہ میں جاؤ اور نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کرو تو میری طرف سے آپ ﷺ کو
سلام پیش کرنا۔
(شعب
الإیمان للبیھقي: ۳۸۷۰، تاریخ دمشق لابن عساکر: ۲۰۳/۶۵)
ضعیف:اس قول کی
سند"ضعیف" ہے۔
۱:اس کا
راوی رباح بن بشیر "مجہول" ہے۔
٭ امام
ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے "مجہول" قرار دیا ہے۔ (الجرح والتعدیل
لابن أبي حاتم: ۴۹۰/۳)
٭امام ابن
حبان رحمہ اللہ (الثقات: ۲۴۲/۸) کے سوائے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔