تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Thursday, December 04, 2014

٭ جمعہ کے دن والدین کی قبروں کی زیارت اور سورۂ یٰس کی تلاوت


Daeef Hadiths, Zaeef Hadees, ضعیف حدیث، موضوع حدیث، سلسلة الأحادیث الضعیفة

جمعہ کے دن والدین کی قبروں کی زیارت اور سورۂ یٰس کی تلاوت 

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ:
من زار قبر أبویه أو أحدھما في کل یوم الجمعة فقرأعنده یٰس غفرله
"جو شخص ہر جمعہ کے دن اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کی قبر کی زیارت کرے
اور وہاں سورۂ یٰس پڑھے تو اس شخص کی مغفرت ہوجائے گی"
(کنز العمال ج۱۶ص۴۶۸ ، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت ۱۴۰۵ھ، ابن عدي عن أبي بکر)

موضوع (من گھڑت): الکامل لابن عدی میں اس روایت کی سند درج ذیل ہے:
"عمروبن زیاد: ثنا یحیی بن سلیم الطائفي عن ھشام بن عروۃ عن أبیه عن عائشة رضی اللہ عنھا عن أبي بکر الصدیق رضی اللہ عنه۔ ۔ ۔ ۔" (ج۵ص۱۸۰۱، دوسرا نسخہ ج۶ص۲۶۰)
٭ یہ روایت بیان کرکے حافظ ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا: "اور یہ حدیث اس سند کے ساتھ باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں، اور اس کے علاوہ عمروبن زیاد کی بیان کردہ اور روایتیں بھی ہیں جو اس نے ثقہ راویوں سے چرائی ہیں اور ان میں موضوع روایات بھی ہیں جن کے گھڑنے میں یہی متہم ہے۔"
۱:اس کے راوی عمروبن زیاد  کے بارے میں:
٭حافظ ابن عدی نے فرمایا: "منکر الحدیث، یسرق الحدیث و یحدث بالبواطیل" منکر روایتیں بیان کرتا تھا، حدیثیں چوری کرتا تھا اور باطل روایات بیان کرتا تھا۔ (الکامل لابن عدی: ۱۸۰۰/۶، ۲۵۹/۶)
٭امام دارقطنی نے فرمایا: "عمر بن زیاد الثوباني: یضع الحدیث" (الضعفاء والمتروکون: ۳۹۱ص۳۰۵)
٭حافظ ذہبی نے  بھی اس راوی کو ایک روایت کا گھڑنے والا قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدلال: ۲۶۱/۳ت۶۳۷۱)
نیز فرمایا: "وضاع" (تلخیص کتاب الموضوعات للذہبی: ۲۰۶/۱ح۹۴۰ بحوالہ شاملہ)
اور فرمایا: "وھو کذاب" (تلخیص کتاب الموضوعات للذہبی: ۹۰/۱ح۳۳۰، شاملہ)
٭ابن الجوزی نے فرمایا: "اور ہم نے تھوڑی دیر پہلے بتایا ہے کہ ثوبانی کذاب تھا۔" (الموضوعات لابن الجوزی:۳/۲، دوسرا نسخہ: ۲۳۰/۲)
تنبیہ: ایک اور راوی ہے جسے عمروبن زیاد الباہلی کہتے ہیں، یہ رے (شہر) میں گیا تھا۔
یہ مصری یا بصری شخص ہے اور اسے ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا۔ (۴۸۸/۸)
جبکہ اسی باہلی کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی نے فرمایا:"وہ حدیثیں گھڑتا تھا۔۔۔۔ اور وہ کذاب افاک (بہت بڑا جھوٹا مفتری)تھا۔" (کتاب الجرح والتعدیل: ۲۳۴/۳ت۱۲۹۴)
حافظ ابن حجر کا خیال ہے کہ الباہلی اور الثوبانی ایک ہی ہے۔ (دیکھئے لسان المیزان: ۳۶۴/۴، دوسرا نسخہ: ۳۰۵/۵)
لیکن انھوں نے کوئی واضح دلیل پیش نہیں کی، لہٰذا ان کا یہ دعویٰ محلِ نظر ہے۔
بشرط صحت اگر ان دونوں کو ایک ہی راوی تسلیم کرلیا جائے تو حافظ ابن عدی، امام ابو حاتم الرازی اور امام دارقطنی وغیرہم (جمہور) کی شدید جروح وتکذیب کے مقابلے میں ابن حبان کی یہ توثیق مردود ہے۔
٭اس موضوع روایت میں بعض الفاظ کے موضوع و مردود شواہد بھی ہیں، لیکن علمی  وتحقیقی میدان میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔