تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Friday, January 31, 2014

٭ سیدنا عثمانؓ سے بغض رکھنے والے کی نماز جنازہ

https://www.facebook.com/photo.php?fbid=254865484680497&l=175d87204f


سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے کی نماز جنازہ

نبی ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس پر نماز پڑھیں ، آپ نے اس پر نماز نہیں پڑھی ، آپ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ(ﷺ)! ہم نے نہیں دیکھا کہ آپ نے اس سے پہلے کسی کی نماز جنازہ ترک کی ہو؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا ، اس لیے اللہ نے اس سے بغض رکھا۔   (سنن ترمذی: 3709) 


موضوع (من گھڑت) : اس روایت کی سند درج ذیل ہے: "عثمان بن زفر: حدثنا محمد بن زیاد عن محمد بن عجلان عن أبی الزبیر عن جابر۔۔۔۔ "
یہ روایت بیان کرنے کے بعد امام ترمذی  رحمہ اللہ نے فرمایا: "یہ غریب روایت ہے ، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور یہ محمد بن زیاد میمون بن  مہران کا شاگرد ہے ، حدیث میں سخت ضعیف ہے۔" (سنن ترمذی : 3709)
٭ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع کہا ہے۔ (السللة الضعیفة : 1967 ، ضعیف الجامع الصغیر : 2073 ، ضعیف ترمذی: 497/1)

احمد بن زیاد (الیشکری الطحان الاعوار الکوفی المیمونی) محدثین کی نظر میں:
اس روایت کےراوی محمد بن زیاد الاعور کے بارے میں محدثین کرام کی گواہیاں درج ذیل ہیں:
٭امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: "کذاب خبیث کانا ، وہ حدیث گھڑتا تھا۔" (العلل و معرفۃ الرجال: 298/3 فقرہ : 5322)
٭عمرو بن علی الفلاس الصیرفی  رحمہ اللہ نے فرمایا: "کان کذاباً ، متروک الحدیث" (الجرح و التعدیل: 258/7 و سندہ صحیح )
نیز فرمایا: "متروک الحدیث کذاب منکر الحدیث ہے، میں نے اسے میمون بن مہران عن ابن عباس کی سند سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنی عورتوں کی مجلسوں کو عاشقانہ غزلوں کے ساتھ مزین کرو۔" (تاریخ بغداد : 280/5 و سندہ صحیح)
٭ ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے فرمایا: "وہ جھوٹ بولتا تھا۔" (کتاب الضعفاء لابی زرعۃ الرازی : ج 2 ص 447)
٭ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: "و کان کذاباً خبیثاً ۔" (تاریخ ابن معین ، روایۃ الدوری : 4940)
اور فرمایا:"وہ کوئی چیز نہیں ، کذاب ہے۔ الخ" (سوالات ابن الجنید: 484)
اور فرمایا: "بغداد میں کچھ لوگ حدیثیں گھڑتے تھے ، ان میں سے محمد بن زیاد بھی ہے جو حدیث گھڑتا تھا۔" (تاریخ بغداد: 279/5 ت 2778 و سند حسن)
٭ دارقطنی  رحمہ اللہ نے فرمایا: "وہ جھوٹ بولتا تھا۔" (الضعفاء و المترکون : 466)
٭: ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا: "وہ حدیثیں گھڑ کر ثقہ راویوں سے منسوب کردیتا تھا۔" (کتاب المجروحین: 250/20 ، دوسرا نسخہ: 259/2)
٭ حاکم نیشا پوری رحمہ اللہ نے فرمایا: "وہ میمون بن مہران وغیرہ سے موضوع روایتیں بیان کرتا تھا ۔" (المدخل الی الصحیح: ص 194 ت 170)
٭ ابو نعیم الصبہانی رحمہ اللہ نے فرمایا: "میمون بن مہران وغیرہ سے موضوع روایتیں بیان کرتا تھا ۔" (کتاب الضعفاء: 209)
٭ ابن شاہین رحمہ اللہ نے فرمایا: "کان کذاباً خبیثاً۔" (تاریخ اسماء الضعفاء و الکزابین لابن شاہین : 564)
٭امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے "متروک الحدیث " کہا اور ثقہ ثبت محدث عمرو بن زارہ بن واقد الکلابی النیسابوری رحمہ اللہ سے نقل کیا : "کان محمد بن زیاد یتھم بوضع الحدیث۔" (کتاب الضعفاء للبخاری بتحقیقی : 327)
٭امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے "متروک الحدیث" کہا۔ (کتاب الضعفاء و المتروکین للنسائی : 547)
٭ابو حاتم الرازی  رحمہ اللہ نے بھی اسے "متروک الحدیث" کہا۔ (الجرح والتعدیل: 258/7)
٭ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی رحمہ اللہ نے فرمایا: "کان کذاباً۔۔ إلخ" (احوال الرجال للجوزجانی : 363)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا: "یہ طحان  (محمد  بن زیاد)کی گھڑی ہوئی روایتوں میں سے ہے۔" (تلخیص المستدرک: 441/4 ح 8264)
سیدنا و مولانا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے ضعیف اور من گھڑت روایات کی کوئی ضرورت نہیں، ایسی روایات سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شان   بیان کرنے کے بجائے گناہ کا مستحق ٹھرانے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ایسے کذاب راوی  کی روایت کو بیان کرنا  ان کا ہی کام ہے جن کی کتابیں جھوٹی اور من گھڑت روایات سے بھری  ہوئی ہوں۔