تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Sunday, September 28, 2014

٭ کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو منافق سمجھتے تھے؟


کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو منافق سمجھتے تھے؟  (رافضی  دلیل کا جواب)
محمد حسین نجفی (رافضی شیعہ) نے لکھا ہے:
"عُمر صاحب عموماً جناب حذیفہ سے (جن کو آنحضرت نے بعض منافقین کے نام بتائے تھے اس لئے انکو صحاب السرِّ (رازدارِ رسول) کہا جاتا تھا) دریافت کیا کرتے تھے کہ کہیں میرا نام تو منافقوں میں نہیں؟ مگر وہ حکمِ نبوی کے مطابق بتانے سے گریز کرتے۔ بالآخر ایک دن خود ہی کہہ دیا۔
باللہ یا حذیفة انا من المنافقین۔ اے حذیفہؓ ! خدا کی قسم میں منافقوں میں سے ہوں" (تجلیاتِ صداقت للمحمدحسین نجفی رافضی بحوالہ میزان الاعتدال: ج۱ص 365)
ضعیف و مردود: میزان الاعتدال میں یہ روایت بے سند ہے، لیکن درج ذیل کتابوں میں یہ اعمش عن زید بن وہب کی سند سے مذکور ہے:
1: مصنف ابن ابی شیبہ (۱۰۷/۱۵ح۳۷۳۷۹)
2:السنة للخلال (۱۲۸۸،۱۶۳۰)
3: کتاب المعرفة (التاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی : ۷۷۹/۲)
4: مسند مسدد (بحوالہ المطالب العالیہ لابن حجر : ۳۷۳۷ وقال: "إسنادہ صحیح" !!)
ان تمام کتابوں میں اس روایت میں اعمش کے زید بن وہب سے سماع کی تصریح موجود نہیں اور سلیمان بن مہران الاعمش ثقہ مدلس تھے۔ اگرچہ حافظ ابن حجر نے اس سند کو اسنادہ صحیح اور اعمش کو طبقات المدلسین کے طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا ہے لیکن اُن کی یہ تحقیق جمہور محدثین اور اصولِ حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔
1: اعمش کے شاگرد امام شعبہ نے فرمایا: تین آدمیوں کی تدلیس کے لئے میں تمہارے لئے کافی ہوں: اعمش، ابو اسحاق اور قتادہ۔ (مسألة التسمیہ لابن طاہر المقدسی: ص ۴۷ وسندہ صحیح)
یعنی امام شعبہ کی روایت کے علاوہ اعمش کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے۔
2:حافظ ابن حبان نے اعمش کو ان مدلس رایوں میں ذکر کیا جن کی عن والی روایت حافظ ابن حبان کے نزدیک حجت نہیں ہوتی، الا یہ کہ وہ تصریح  سماع کریں۔ (دیکھئے کتاب المجروحین:۹۲/۱ دوسرا نسخہ:۸۶/۱، صحیح ابن حبان:۱۶۱/۱دوسرا نسخہ:۹۰/۱)
3:اعمش ضعیف راویوں سے بھی تدلیس کرتے تھے۔ (مثلاً دیکھئے میزان الاعتدال: ۲۲۴/۲)
اور جو راوی ضعیف راویوں سے تدلیس کرے تو اس کی عن والی روایت (بالاولیٰ) مردود ہوتی ہے۔ (نیز دیکھئے الموقظۃ [فی اصول الحدیث] للذہبی: ص۱۹۹)
4: اعمش کا مدلس ہونا ناقابلِ تردید حقیقت ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہوگیا کہ اس نے ایک دفعہ  تدلیس کی ہے تو اُس نے اپنی پوشیدہ بات ہمارے سامنے ظاہر کردی۔ ۔ ۔ پس ہم نے کہا: ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے حتیٰ کہ وہ حدثنی یا سمعت کہے۔ (الرسالۃ: ۱۰۳۳،۱۰۳۵)
5:خود حافظ ابن حجر نے اپنی دوسری کتاب النکت علیٰ ابن الصلاح (۶۴۰/۲) میں اعمش کو طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ، نیز اعمش کی بیان کردہ ایک معنعن روایت کو معلول (ضعیف)  قرار دیا اور فرمایا: اعمش مدلس ہیں اور انہوں نے عطاء سے اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا۔ (التلخیص الحبیر: ۱۹/۳ح۱۱۸۱)
یعنی خود حافظ ابن حجر کے نزدیک اعمش کثرت سے تدلیس کرنے والے ہیں۔
ثابت ہوا کہ اعمش کی یہ عن والی روایت ضعیف ومردود ہے لہٰذا امام یعقوب بن سفیان الفارسی رحمہ اللہ کا زید بن وہب پر جرح کرنا غلط ہے، وہ تو اس روایت ہی سے بری ہیں۔
(اہل سنت میں سے)  جو لوگ مروجہ طبقات المدلسین پر  آنکھیں بند کرکے ایمان رکھتے ہیں وہ ذرا ہوش سے کام لیں او ر دیکھیں  مدلسین کی معنعن روایات سے کیا کیا تباہیاں واقع ہورہی ہیں۔
 روایت کے ضعیف ومردود ہونے کے بعد عرض ہے کہ اس روایت میں یہ ہرگز نہیں لکھا ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو منافق سمجھتے تھے بلکہ صرف یہ لکھا ہوا ہے:
" فقال: أبا منھم أنا؟" پس عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اللہ کی قسم! کیا میں بھی اُن میں سے  ہوں؟ حذیفہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: "لا" نہیں۔ (دیکھئے المطالب العالیہ: ۲۴۰/۸ بحوالہ مسدد)
اس ضعیف روایت سے بھی یہی ظاہر ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو منافق نہیں کہا تھا بلکہ تواضع کے طور پر سوال کیا تھا اور حذیفہ رضی اللہ عنہ نے"لا" کہہ کر یہ فیصلہ کردیا کہ سیدنا عمر منافق نہیں بلکہ سچے مومن ہیں۔
اس بات کو چھپا کر محمد حسین نجفی نے اپنے اسلاف کا منہج و طرزِ عمل تازہ کردیا ہے۔
ہمارے نزدیک تو یہ روایت ضعیف یعنی مردود ہے، لہٰذا اس پر استدلال کی بنیاد رکھنا بھی باطل ومردود ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان کی گواہی نبی اکرم ﷺ کی اپنی زبانِ مبارک سے:
٭بے شک اللہ  نے عمر (رضی اللہ عنہ) کے دل و زبان پر حق جاری کر رکھا ہے۔ (صحیح ابن حبان، موارد الظمآن: ۲۱۸۴ وسندہ صحیح)
٭رسول اللہ ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ کے دین کی گواہی دی (صحیح بخاری: ۳۶۹۱، صحیح مسلم: ۳۳۹۰)
٭نبی کریم ﷺ نے جنت میں سیدنا  و مولی عمر رضی اللہ عنہ کا محل دیکھا تھا۔ (صحیح بخاری: ۵۲۲۶،۷۰۲۴، صحیح مسلم:۳۳۹۴)
٭رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جنتی کہا۔ (سنن ترمذی: ۳۷۴۷ وسندہ صحیح)
٭امام ابو جعفر محمد بن علی الحسین الباقر رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص کو ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل معلوم نہیں، وہ شخص سنت سے جاہل ہے۔ (کتاب الشریعۃ للآجری: ص۸۵۱ح۱۸۰۳، وسندہ حسن لذاتہ)
٭امام جعفر بن محمد الصادق رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ اس شخص سے بری ہے جو ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے بری ہے۔ (فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل: ۱۶۰/۱ح۱۴۳، وسندہ صحیح)
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں کو سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، تمام صحابۂ کرام، ازواج مطہرات اور تمام اہل بیت کی محبت سے بھر دے۔ آمین