تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Thursday, February 06, 2014

٭ نصف (15)شعبان سے متعلق ضعیف روایات



نصف  (15)شعبان سے متعلق ضعیف روایات
 "اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کو تمام مخلوقات کی طرف دیکھتا ہے اور مشرک اور کینہ پرور (ایک روایت کے مطابق قاتل) کے علاوہ سب کی مغفرت  فرمادیتا ہے۔"

ضعیف :  یہ روایت انہی الفاظ کے ساتھ سات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے،  جو سب کی سب ضعیف ہیں ۔
۱ : عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو امام احمد نے مسند(176:2) میں اور منذری نے ترغیب و ترہیب (1519) کے  اندر روایت کیا  ہے۔
اس روایت کی سند میں معروف ضعیف راوی ابن لہیعہ کا وجود اس حدیث کے ضعیف ہونے کے لئے کافی ہے، جیسا کہ ہیثمی نے لکھا ہے: "ابن لھیعۃ لین الحدیث و بقیۃ رجالہ و ثقوا" (مجمع الزوائد، 65:8) البتہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو رشدین بن سعد کی متابعت کی بنا پر حسن قراردیا ہے۔
واضح رہے کہ رشدین بن سعد خود ضعیف ہیں، کیونکہ یہ مناکیر (منکر روایتوں) کی روایت کیا کرت تھے، حتی کی امام ابو حاتم نے ابن لہیعہ کو ان پر مقدم قراردیا ہے۔ (الجراح والتعدیل: 2319 ، والتقریب : 1953)
۲ : ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو ابن ماجہ نے سنن  (اقامۃ الصلاۃ : 1390 ) میں روایت کیا ہے، اس کی سند تین وجہ سے معلول ہے۔
اول : ابن لہیعہ کی وجہ سے  اس کے اندر ضعف ہے۔
دوم: عبدالرحمن بن عزرب مجہول ہیں۔
سوم: اس کی سند کے اندر اضطراب ہے۔
۳ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو  بزار (مسند بزار: ص 245) نے روایت کیا ہے۔یہ روایت ہشام بن عبد الرحمن کی وجہ سے معلول ہے جو کہ مجہول ہیں، جیسا کہ ہیثمی نے لکھا ہے:"لم آعرفہ" "میں انہیں نہیں جانتا"۔
۴ : ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو ابن خزیمہ نے  "کتاب التوحید" بیہقی نے "الترغیب" اور ابن ابی عاصم نے کتاب السنہ (509) کے اندر روایت کیا ہے۔
امام بیہقی فرماتے ہیں: "اس کی سند میں کوئی حرج نہیں ہے" (الصحیحۃ:137/3)  لیکن اس سند کے اندر عبدالملک بن عبد الملک ہیں جن کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں : "اس کی حدیث محل نظر ہے"، امام ابن حبان وغیرہ فرماتے ہیں: "اس کی حدیث کی متابعت نہیں کی جاسکتی'
 اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد ابن عدی فرماتے ہیں: "(عبدالملک)  اس اسناد کے سلسلے میں معروف ہے اور اس حدیث کو ان سے عمر بن الحارث کے علاوہ کوئی  روایت نہیں کرتا ہے، اور یہ حدیث اس سند سے منکر ہے"۔ (لسان المیزان 67:4 رقم 197)
۵ : عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو بزار نے اپنی مسند (ص :245) کے اندر ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو ضعیف قراردیا ہے، اس روایت کی سند کے اندر دو علتیں ہیں،
اول: ابن لہیعہ کی موجودگی۔
دوم : عبد الرحمن بن انعم جنہیں جمہور ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ہیثمی نے لکھا ہے۔
۶ : ابو ثعلب خشنی  رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو طبرانی نے معجم کبیر(590-593) ابن ابی عاصم نے کتاب السنہ (511) بیہقی نے شعب الایمان (3832) اور منذری نے ترغیب و تر ہیب (4082) کے اندر روایت کیا ہے، اس کی سند میں احوص بن حکیم ہیں جو ضعیف الحفظ ہیں۔ (مجمع الزوائد:65/8 ، التقریب:292)
۷ : معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو طبرانی نے (معجم کبیر:215) ، ابو نعیم نے (الحلیۃ : 191/5) ، ابن حبان (1980) ، ابن ابی عاصم  (السنۃ : 512) اور بیہقی نے (فضائل الاوقات : 22) میں روایت کیا ہے۔   اس کی سند میں انقطاع پایا جاتا پے، کیونکہ مکحول جو کثیر الارسال ہیں ان کا سماع مالک بن یخامر سے ثابت نہیں ہے۔ (التقریب: 6923)
ان تمام سندوں کی وہ حیثیت نہیں ہے جس کی بنیاد پر تمام اسناد کو بیک زبان صحیح قراردیا جاسکے اور اس کی بنیاد پر کسی مخصوص رات کی کوئی  مخصوص عبادت مشروع قرار پائے، خاص طور سے جس کو بنیاد  بناکر دین میں بدعات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجائے، اگر کھینچ تان کر یہ روایت حسن کے درجہ کو پہنچ بھی جاتی ہے تو آسمان دنیا پر ہر روز بلا تخصیص نزول رب اور اعمال کی پیشی سے متعلق دیگر تمام صحیح روایتوں کے پیش نظر شاذ قرار پائے گی۔
اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت کا بلا کسی تخصیص کے ہر رات کے نصف کو آسمانِ دنیا پر نزول فرمانے سے متعلق متعدد صحیح روایتوں کا موجود ہونا اور کسی مخصوص رات سے متعلق کسی ایک بھی روایت کا علت سے خالی نہ ہونا اپنے آپ میں کچھ معنی ضرور رکھتا ہے ! چناچہ قاضی ابوبکر ابن العربی فرماتے ہیں کہ: "شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت وغیرہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جاسکے"۔