تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Sunday, January 25, 2015

٭ دیہاتی کا نبی اکرم ﷺ کے سر اور پاؤں مبارک کو چومنا


دیہاتی کا نبی اکرم ﷺ کے سر اور پاؤں مبارک کو چومنا
 
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
ایک دیہاتی نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں یقیناً مسلمان ہوں۔ مجھے کوئی ایسی چیز دکھائیں، جس سے میرا  ایمان بڑھ جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: آپ اس درخت کو بلائیں، وہ آپ ﷺ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے درخت کو بلایا اور وہ آپ ﷺ کے پاس آیا اور سلام کہا۔ آپ ﷺ نے اسے واپس اپنی جگہ جانے کا کہا، تو وہ چلاگیا، تب اس دیہاتی نے کہا:
اِئٗذَنٗ لِي أُقَبِّلَ رَأٗسَکَ وَرِجٗلَیٗکَ
"مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے سر اور دونوں پاؤں مبارک کو چوموں۔“
آپ ﷺ نے اسے اجازت دی، تو اس نے ایسا کرلیا۔
(مسند الدارمي: ۱۴۷۲، القبل لابن العرابي: ۴۲، تقبیل الید لأبي بکر بن المقري:۵، المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ۱۷۲/۴، دلائل النبوة لأبي نعیم الأصبہاني: ۲۹۱)
ضعیف : یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ :
۱: اس کا راوی صالح بن حیان قرشی جمہور محدثین کرام کے نزدیک "ضعیف" ہے۔
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے "ضعیف" قرار دیا ہے۔ (تقریب التھذیب: ۲۸۵۱)
٭امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے بھی "ضعیف" ہی کہا ہے۔ (تاریخ ابن معین بروایة الدارمي:ص۱۳۴ت۴۳۴)
٭امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے "غیر ثقہ" کہتے ہیں۔ (الضعفاء والمتروکون: ۲۹۵)
٭امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عامة ما یرویه غیر محفوظ "اس کی بیان کردہ اکثر روایات غیر محفوظ ہیں۔" (الکامل في ضعفاء الرجال: ۵۵/۴)
٭امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں "فیہ نظر" فرمایا۔ (التاریخ الکبیر: ۲۷۵/۴)
٭امام دارقطنی رحمہ اللہ نے "لیس بالقوی" کہا ہے۔ (الضعفاء المتروکون: ۲۸۹)
٭امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا۔ (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۲۹۸/۴)
٭امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یروي عن الثقات أشیاء لا تشبه حدیث الأثبات، لا یعجبني الاحتجاج بهٖ إذا انفرد
"یہ ثقہ راویوں سے منسوب کرکے ایسی روایات نقل کرتا ہے، جو ثقہ راویوں کی احادیث سے میل نہیں کھاتیں۔ مجھے اس حدیث سے استدلال کرنا پسند نہیں، جس کے بیان کرنے میں یہ منفرد ہو۔" (المجروحین: ۳۶۹/۱)
٭امام حربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: له أحادیث منکرة "اس نے منکر احادیث بیان کی ہیں۔" (تھذیب التھذیب لابن حجر: ۳۸۷/۴)
٭امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جائز الحدیث، یکتب الحدیث ولیس بالقوی، وھو في إعداد الشیوخ "یہ جائز الحدیث ہے، اس کی حدیث لکھ لی جائے گی، مگر یہ قوی نہیں۔ اس کا شمار شیوخ میں ہوتا ہے۔" (تاریخ العجلي: ۲۲۵)
٭حافظ ہیثمی فرماتے ہیں: وھو ضعیف، ولم یوثقه أحد "یہ ضعیف راوی ہے، اسے کسی محدث نے ثقہ نہیں کہا۔" (مجمع الزوائد: ۱۰۵/۱)
٭امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "صحیح الاسناد" کہا، تو اس کے ردّ میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا: بل واہ، وفي إسنادہٖ صالح بن حیان متروک "یہ ضعیف روایت ہے، اس کی سند میں صالح بن حیان راوی متروک ہے۔"