تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Sunday, February 09, 2014

٭ آدم علیہ السلام نے محمد ﷺ کا وسیلہ پکڑا



آدم علیہ السلام نے محمد ﷺ کا وسیلہ پکڑا

جب آدم علیہ السلام نے گناہ کا ارتکاب کیا تو کہا اے پروردگار ! میں محمد ﷺ کے حق کا واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتا ہوں مجھے معاف فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم (علیہ السلام) ! تو نے محمد(ﷺ) کو کیسے جانا، میں نے تو اسے ابھی پیدا بھی نہیں کیا ؟ آدم علیہ السلام نے کہا پروردگار ! جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے بنایا اور میرے اندر اپنی روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ عرش کے پایوں پر لکھا ہوا ہے "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" مجھے معلوم ہوگیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ جس کا اضافہ کیا ہے وہ مخلوق میں تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم (علیہ السلام) ! تو نے سچ کہا ہے۔ یقیناً مخلوق میں مجھے وہ سب سے زیادہ محبوب ہے لہٰذا تو مجھے اس کا واسطہ دے کر پکار، بلاشبہ میں  نےتمہیں معاف کردیا ہے اور اگر محمد (ﷺ) نہ ہوتا تو تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔


موضوع: امام ابن تیمیہ  اور البانی رحمہم اللہ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ (الأ حادیث و الأثار الذی تکلم علیھا شیخ الاسلام ابن تیمیۃ: ص، 19) ، (السلسلۃ الضعیفۃ : 25)
تنبیہ : طاہر القادری صاحب نے اس روایت کو بحوالہ المستدرک للحاکم ( ۲؍ ۶۱۵) نقل کر کے لکھا ہے:

"اس حدیث پاک کو جن علماء اور ائمہ و حفاظ حدیث نے اپنی کتب میں نقل کر کے صحیح قرار دیا ہے، ان میں سے بعض یہ ہیں:

"  ( البیہقي في الدلائل، ۵:۴۸۹) ، (    ابو نعیم فی الحلیۃ ، ۹: ۵۳) ، ( التاریخ الکبیر ، ۷: ۳۷۴) ، ( المعجم الصغیر للطبراني، ۲: ۸۲) ، (الہیثمي في مجمع الزوائد، ۸: ۱۵۳) ، (ابن عدي في الکامل ، ۴: ۱۵۸۵) ، ( الدر المنثور، ۱: ۶۰) ، (الآجري في الشریعۃ ۴۴۲۔ ۴۲۵) ،  (فتاوٰی ابن تیمیہ ، ۲: ۱۵۰ ) ‘‘
حوالہ :  ( عقیدہ  توحید اور حقیقت ِشرک، ص ۲۶۶، اشاعت ہفتم ،جون ۲۰۰۵)

اس عبارت میں طاہر القادری صاحب نے نو(۹) مذکورہ کتابوں اور علماء کے بارے میں نو (۹) عدد غلط بیانیاں کی ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

1۔امام بیہقی نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا، بلکہ فرمایا: "اس سند کے ساتھ عبدالرحمن بن زید بن اسلم منفرد ہوا، اور وہ ضعیف ہے۔ "( واللہ اعلم ) ( دلائل النبوۃ :۵؍ ۴۸۹ ،طبع دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان ) امام بیہقی نے توراوی کو ضعیف قرار دیا ہے اور قادری صاحب کہہ رہے ہیں کہ اُنہوں نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ سبحان اللہ!

2۔حافظ ابو نعیم الاصبہانی کی کتاب حلیۃ الأولیاء ( ۹؍ ۵۳) میں یہ روایت نہیں ملی اور نہ اسے ابو نعیم کا صحیح قرار دینا ثابت ہے۔

3۔التاریخ الکبیرسے مراد اگر امام بخاری کی کتاب التاریخ الکبیرہے تو یہ روایت وہاں نہیں ملی اور نہ امام بخاری سے اسے صحیح قرار دینا ثابت ہے۔اگر التاریخ الکبیرسے مراد کوئی دوسری کتاب ہے تو اس کی صراحت کیوں نہیں کی گئی بلکہ یہ تو صریح تدلیس ہے۔

4۔المعجم الصغیر للطبراني (۲؍ ۸۲، ۸۳ ح ۱۰۰۵، بترقیمی) میں یہ روایت موجود ہے لیکن امام طبرانی نے اسے صحیح قرار نہیں دیا بلکہ فرمایا:یہ (سیدنا) عمرؓسے صرف اسی اسناد (سند ) کے ساتھ مروی ہے، احمد بن سعید نے اس کے ساتھ تفرد کیا ہے۔

5۔حافظ ہیثمی نے اس روایت کو صحیح قرار نہیں دیا، بلکہ لکھا ہے: ’’ اسے طبرانی نے الأوسط اورالصغیرمیں روایت کیا اور اس میں ایسے راوی ہیں جنھیں میں نہیں جانتا ۔‘‘ ( مجمع الزوائد: ۸؍ ۲۵۳)

6۔ابن عدی کی کتاب الکامل کے محولہ صفحے بلکہ ساری کتاب میں یہ روایت نہیں ملی۔

7۔درّمنثور(۱؍ ۵۸، دوسرا نسخہ ۱؍ ۱۳۱) میں یہ روایت بحوالہ المعجم الصغیر للطبراني، حاکم،الدلائل لأبي نعیم، الدلائل للبیہقي اور ابن عساکر موجود ہے، لیکن اسے صحیح قرار نہیں دیا گیا۔

8۔الآجري نے اسے صحیح قرار نہیں دیا۔ (الشریعہ: ص ۴۲۷، ۴۲۸ ح ۹۵۶، دوسرا نسخہ :۳؍ ۱۴۱۵)

9۔حافظ ابن تیمیہ ؒ نے اس روایت کو بحوالہ ابو نعیم في دلائل النبوۃ نقل توکیا ہے مگر صحیح قرار نہیں دیا،بلکہ عرش کے بارے میں صحیح اَحادیث کی تفسیر کے طور پر نقل کیا۔  (دیکھئے: مجموع فتاویٰ : ۲؍ ۱۵۰، ۱۵۱)بلکہ ابن تیمیہؒ نے بذاتِ خود اس روایت پر جرح کی ، فرمایا: ’’اس حدیث کی روایت پر حاکم پر انکار کیا گیا ہے،کیونکہ اُنہوں نے خود (اپنی)کتاب المدخل میں کہا:  عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں روایت کیں۔۔۔( قاعدۃ جلیلۃ في التوسل والوسیلۃ ص ۸۵، مجموع فتاویٰ ج۱ص ۲۵۴۔ ۲۵۵)

قادری صاحب کی نو( ۹) غلط بیانیوں کے تذکرے کے بعد عرض ہے کہ مستدرک الحاکم وغیرہ کی روایتِ مذکورہ موضوع ہے۔  اسے حافظ ذہبی نے موضوع کہا اور باطل خبر قرار دیا۔ حافظ ابن حجر نے ’خبرًا باطلا‘ والی جرح نقل کر کے کوئی تردید نہیں کی یعنی حافظ ابن حجر کے نزدیک بھی یہ روایت باطل ہے۔ (دیکھئے: لسان المیزان :۳؍ ۳۶۰، دوسرا نسخہ :۴؍ ۱۶۲)

٭۔اگر کوئی کہے کہ حاکم نے اسے صحیح الإسناد کہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تصحیح کئی وجہ سے غلط ہے۔مثلاً:

1۔خود حاکم نے اس روایت کے ایک راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے بارے میں فرمایا:

"اُس نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں بیاں کیں ۔" ( المدخل إلی الصحیح ص ۱۵۴ت ۹۷)

گویا وہ اپنی شدید جرح بھول گئے تھے۔

2۔حاکم کی یہ جرح جمہور علماء مثلاً حافظ ذہبی وغیرہ کی جرح سے معارض ہے۔

3۔حاکم اپنی کتاب المستدرک میں متساہل تھے۔

4۔اس کی سند میں عبداللہ بن مسلم راوی ہے، جس کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا کہ اس کا عبداللہ بن مسلم بن رشید ہونا میرے نزدیک بعید نہیں ہے۔ ( لسان المیزان ۳؍ ۳۶۰)

اس ابن رشید کے بارے میں حافظ ابن حبان نے فرمایا:"یضع" وہ ( حدیثیں) گھڑتا تھا۔ ( المجروحین:۲؍ ۴۴، لسان المیزان:۳؍ ۳۵۹)