تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Wednesday, June 17, 2015

٭ روزہ افطار کرنے کی دعا


روزہ افطار کرنے کی دعا

معاذ بن زہرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب افطار کرتے تھے تو آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے ھے:
اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ.
” اے اللہ! تیرے  ہی لیے میں نے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے سے افطار کیا۔“

ضعیف :  یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ؛
۱: اس کا راوی معاذ بن زہرہ مجہول ہے۔
۲: نیز سند مرسل  (ضعیف)ہے۔ کیونکہ تابعی ڈائریکٹ نبیٔ اکرم ﷺ سے روایت کررہا ہے۔

صحیح حدیث:ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، جب نبی ﷺ روزہ افطار کرتے تو آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ
”پیاس جاتی رہی، رگیں تر ہوگئیں اور ثواب لازم و ثابت ہوگیا، اگر اللہ نے چاہا۔“


کیا مرسل حدیث حجت ہے؟


٭ جمہور محدثین کے نزدیک تابعی کی مرسل روایت ہر لحاظ سے مردود ہے۔
۱: الامام، الفقیہ، ابو بکر احمد بن اسحاق بن ایوب بن یزید بن عبد الرحمٰن بن نوح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لو أن المرسل من الأخبار و المتصل سیان لما تکلف العلماء طلب الحدیث بالسماع ولما ارتحلوا فی جمعه مسموعا ولا التمسوا صحته ولکان أھل کل عصر إذا سمعوا حدیثا من عالمهم وهو یقال قال رسول اللہ ﷺ کذا و کذا لم یسألوه عن إسناده وقد روینا عن جماعة من التابعین وأتباع التابعین کانوا یسألون عن السنة ثم یقولون للتابعین هل من أثر وإذا ذکر الأثر قالواهل من قدوة وإنما یعنون بذلک الإسناد المتصل و لم یقتصروا علی قول الزهری و إبراهیم قال رسول اللہ ﷺ فکیف یقتصروا من مالک والنعمان إذا قالا رسول اللہ ﷺ.
”اگر مرسل اور متصل احادیث ایک جیسی (حجت) ہوتیں تو علمائے کرام طلبِ حدیث میں سماع کرنے کی زحمت نہ اٹھاتے، نہ ہی خود سنی ہوئی احادیث کو جمع کرنے کے لیے وہ سفر کرتے، نہ ہی وہ احادیث کی صحت کی تلاشی کے متلاشی ہوتے، نیز ہر دور کے لوگ جب اپنے عالم کو یہ کہتے سنتے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوں فرمایا، تو اس سے سند کے بارے میں سوال نہ کرتے، حالانکہ تابعین اور تبع تابعین کی ایک جماعت سے ہم نے روایت کیا ہے کہ وہ سنتِ نبوی کے بارے میں پوچھتےتھے، پھر تابعین سے کہتے کہ کیا کوئی اثر ہے؟ کیا کوئی قدوہ ہے؟ اس سے مراد متصل سند لیتے تھے۔ وہ (محمد بن مسلم) زہری رحمہ اللہ اور ابراہیم (نخعی رحمہ اللہ) کے اس قول پر اکتفا نہیں کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوں فرمایا ہے، امام مالک اور امام ابو حنیفہ اگر کہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یوں فرمایا ہے تو ان کی بات پر کیسے اکتفا کیا جاسکتا ہے؟ .“ (الکفایة فی علم الروایة للخطیب: ۱۲۴۵، وسندہ صحیح)
۲:امام مسلم رحمہ اللہ "مرسل " کے بارے میں فرماتے ہیں:
والمرسل  فی اصل قولنا وقول اهل العلم بالاخبار لیس
بحجة.
”ہمارے (محدثین) کے اصل قول اور (دوسرے) علماء کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ہے۔ ”(مقدمہ صحیح مسلم ج۱ ص۲۲ بعد ح۹۲ و فتح الملہم ج۱ ص۴۱۰)
۳:امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لا نحتج بالمراسیل، ولا بالأخبار الواهیة.
"ہم مرسل اور ضعیف روایات سے حجت نہیں لیتے۔" (کتاب التوحید لابن خزیمہ: ۱۳۷/۱)
۴: امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
و ھم لا یحتجون بالمراسیل.
"وہ (محدثین) مرسل روایات سے  دلیل نہیں لیتے۔" (نصب الرایة للزیلعی الحنفی: ۵۸/۱)
۵: امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولسنا ولا إیّاک نثبت المرسل.
"نہ ہم مرسل کو صحیح سمجھتے ہیں، نہ آپ۔" (اختلاف الحدیث للشافعی: ۵۶۰)
۶:امام ابن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت أبی و أبا زرعة یقولان : لا یحتج بالمراسیل، ولا تقوم الحجّة إلّا بالأسانید الصّحاح المتّصلة، وکذا أقول أنا.
"میں نے اپنے والد (امام ابو حاتم رحمہ اللہ) اور امام ابو زرعہ رحمہ اللہ  سے سنا، وہ دونوں فرمارہے تھے کہ مرسل روایات سے حجت نہیں  لی جائے گی، حجت صرف صحیح اور متصل سندوں کے ساتھ قائم ہوسکتی ہے۔ میں بھی ایسا ہی کہتا ہوں۔" (کتاب المراسیل لابن حاتم: ۷)
۷:امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والحدیث مرسل، لا تقوم به الحجّة.
"یہ حدیث مرسل ہے اور اس کے ساتھ حجت قائم نہیں ہوسکتی۔" (سنن الدارقطنی: ۳۹۸/۱)
۸:امام ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المرسل من الحدیث ، لاتقوم به الحجّة.
"مرسل حدیث سے حجت قائم نہیں ہوتی۔" (الاوسط لابن المنذر: ۲۲۸/۱، ۲۷۱/۱)
جاری ہے۔۔۔۔۔