تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Sunday, April 19, 2015

٭ رجب کے روزوں اور اس کی فضیلت سے متعلق علماء کے اقوال


رجب کے روزوں اور اس کی فضیلت سے متعلق علماء کے اقوال:

(1) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم یرد فی فضل شھر رجب ، ولا فی صیامہ ، ولا فی صیام شئی منہ معین ، ولا فی قیام لیلۃ مخصوصۃفیہ حدیث صحیح یصلح للحجۃو قد سبقنی الی الجزم بذلک الامام ابو اسمٰعیل الھروی الحافظ ، رویناہ عنہ باسناد صحیح ، و کذلک رویناہ عن غیرہ . (تبیین العجب :۷۱)
یعنی :رجب کے مہینے کی فضیلت کے حوالے سےکوئی صحیح روایت وارد نہیں ہوئی اور نہ ہی رجب کے روزوں کے بارے میں ، اور اسے مخصوص روزوں اور قیام کے بارے میں بھی کوئی صحیح روایت وارد نہیں جو حجت کے قابل ہو ۔اور مجھ سے پہلے یہی بات امام ابو اسمعیل  نے کہی ہے جسے ہم نے سند صحیح کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
(2) علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واماالصیام،فلم یصح فی فضل صوم رجب بخصوصہ شئی عن النبی ﷺ ولا عن الصحابۃ .(لطائف المعارف :۲۲۸)
یعنی :نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ سے رجب کے روزوں سے متعلق کچھ بھی ثابت نہیں۔
(3) امام عبداللہ انصاری کے بارے میں آتا ہے :
كَانَ عَبْد اللَّهِ الأَنْصَارِيّ لَا يَصُوم رَجَب وَينْهى عَن ذَلِك يَقُول: مَا صَحَّ فِي فضل رَجَب وَفِي صِيَامه عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم شئ.(الموضوعات لابن الجوزی :کتاب الصیام ،،۲۰۸/۲، المغنی عن الحفظ والکتاب :باب صیام رجب و فضلہ  ،۳۷۱/۱)
یعنی : امام عبداللہ انصاری رجب کے روزے نہیں رکھتے تھے اور اس سے روکتے تھے اور فرمایا کرتے تھے :رجب کی فضیلت اور اس کے روزوں کے حوالے سے کوئی صحیح روایت مروی نہیں ۔
(4)علی بن ابراہیم العطارکہتے ہیں:
ان ما روی فی فضل صیام رجب ، فکلہ موضوع و ضعیف ، لا اصل لہ .(الفوائد المجموعۃ :۳۹۲)
یعنی :رجب کے روزوں کے بارے میں جو کچھ مروی ہے وہ سب ضعیف و موضوع ہے ۔
(5)علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
و کل حدیث فی ذکر صوم رجب  و صلوۃ بعض اللیالی فیہ ، فھوکذب مفتری. (المنار المنیف :84)
یعنی :رجب اور اس کی بعض راتوں کے قیام کے حوالے سے تمام روایات جھوٹ اور بہتان ہیں ۔
ضروری وضاحت :
ہماری مذکورہ تمام گزارشات سے واضح ہوگیا کہ رجب کے روزوں کی فضیلت اور رجب کی دیگر مخصوص عبادات کسی صحیح حدیث یا اثر سے ثابت نہیں ہیں، البتہ یہاں کچھ باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
1) اگر ایک شخص کی مسلسل روزے رکھنے کی کوئی ترتیب بنی ہوئی ہے اور اسی ترتیب میں رجب کا مہینہ بھی آرہا ہے تو اس جہت سے یہ روزے رکھے جاسکتے ہیں ، مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ روزے مسلسل نہ ہوں یعنی لگاتار و پے درپہ بغیر گیپ کے نہ ہوں ،کیونکہ رسولِ اکرم ﷺنے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا:" سب افضل روزہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن فاصلہ رکھتے"  یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھتے اس سے زیادہ کی شرعاً اجازت نہیں،اگر کسی نے مسلسل نفلی روزے رکھنے ہوں تو وہ سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرح رکھے ۔
2) کفاروں و قضاء کی صورت میں مسلسل روزے رکھےجاسکتے ہیں کیونکہ وہ واجبی روزے ہیں نہ کہ نفلی۔
رسولِ اکرمﷺکی سنّتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر اسلامی مہینہ کی 13،14،1ٍ5 تاریخ کے روزے اور ہر پیر و جمعرات کے روزے عام مہینوں کی طرح ماہِ رجب میں بھی رکھے جاسکتے ہیں ، لیکن ان کا ماہِ رجب سے کسی بھی قسم کا کوےی تعلق نہیں ، آپﷺ عموماً  پورے سال میں اس ترتیب سے روزے رکھتے تھے۔
رب کریم ہمیں تمام بدعات وناجائزرسومات سے بچا کر توحید و سنت پر کار بند رکھے ۔(آمین )