تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Saturday, March 28, 2015

٭ سیدنا زکریا علیہ السلام کا درخت سے پناہ مانگنا


سیدنا زکریا   کا درخت سے پناہ مانگنا
 
معراج کے بارے میں ایک لمبی چوڑی روایت میں سیدنا ذکریا  کا رسول اللہ ﷺ سے یہ مکالمہ مروی ہے کہ:
 قالت بنو إسرائیل: قد غضب إلٰهُ زکریا، فتعالوا حتی نغضب لملکنا، فنقتل زکریا، قال: فخرجوا في طلبي لیقتلوني، فجائني النذیر، فھربت منھم، وإبلیس أمامھم، یدلھم علي، فلما أن تخوفت أن لا أعجزھم، عرضت لي شجرۃ، فنادتني، فقالت: إلي، وانصدعت لي، فدخلت فیھا، قال: وجاء إبلیس حتی إخذ طرف ردائي، والتأمت الشجرۃ، و بقي طرف رادئي خارجا من الشجرۃ، وجائت بنو إسرائیل، فقال إبلیس : أما رأیتموہ دخل ھٰذہ الشجرۃ، ھٰذا طرف ردائهٖ، دخلھا بسحرہٖ، فقالوا : نحرق ھٰذہ الشجرۃ، فقال   إبلیس : شقوھا بالمشار شقا، قال : فشققت مع الشجرۃ بالمنشار، فقال له النبيﷺ : <<یا زکریا! ھل وجدت له مسا أو وجعا؟>> قال: لا، إنما وجدت ذٰلک الشجرۃ جعل اللہ روحي فیھا.قحط المدینة قحطا شدیدا، فشکوا الی عائشة رضی اللہ عنها فقالت: انظروا قبر النبي ﷺ فاجعلوا منه کوی الی السماء، حتی لا یکون بینه و بین السماء سقف، ففعلوا، فمطروا مطرا حتی نبت العشب، وسمنت الابل، حتی تفتقت من الشحم، فسمی عام الفتق
"بنی اسرائیل نے کہا کہ زکریا کا الٰہ اس سے ناراض  ہوگیا ہے، آؤ ہم اپنے بادشاہ کی خاطر زکریا سے  ناراض ہوجائیں اور اسے قتل کردیں۔ وہ مجھے قتل کرنے کیلئے تلاش کرنے لگے۔ ایک شخص نے مجھے  اس بات کی اطلاع دی تو میں بھاگ نکلا۔ ابلیس ان لوگوں کے آگے آگے تھا اور میرے بارے میں ان کو بتا رہا تھا۔ جب مجھے خوف ہوا کہ میں مزید نہیں بھاگ پاؤں گا تو ایک درخت میرے سامنے آکر کہنے لگا : میرے پاس آجاؤ۔ یہ کہہ کر اس کا تنا پھیل گیا۔ میں اس میں داخل ہونے لگا۔ اتنی دیر میں ابلیس نے آکر میری چادر کا ایک کونہ پکڑلیا۔ اسی دوران درخت کا تنا لپٹ گیا اور میری چادر کا کونہ درخت سے باہر ہی رہ گیا۔ جب بنی اسرائیل آئے تو ابلیس ان سے کہنے لگا : کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ زکریا اپنے جادو کے ذریعے اس درخت میں داخل ہوگیا ہے۔ یہ رہا اس کی چادر کا کونہ! بنی اسرائیل کہنے لگے کہ ہم اس درخت کو جلائیں گے۔ ابلیس نے کہا: اسے آرے سے چیر دو۔ یوں آرے سے مجھے درخت کے ساتھ ہی چیر دیا گیا۔ نبی اکرم ﷺ نے سیدنا زکریا  سے پوچھا : کیا اس سے آپ کو کوئی گزند یا تکلیف پہنچی؟  سیدنا زکریا  نے فرمایا: نہیں مجھے تو یوں لگا کہ میری روح اللہ تعالیٰ نے درخت ہی میں ڈال دی تھی۔"
 (تاریخ دمشق لابن عساکر: ۵۶/۱۹)

موضوع (من گھڑت):
 یہ جھوٹی روایت ہے؛
٭ اس کوگھڑنے کا سہرا اسحاق بن بشر بن محمد بن عبد اللہ، ابو حذیفہ، بخاری کے سر ہے، جو کہ "متروک" اور "کذاب" راوی ہے۔ (دیکھیں: میزان الاعتدال للذھبي: ۱۸۴/۱ ۔ ۱۸۶)
تنبیہ: سیدنا زکریا  سے منسوب اسی طرح کا واقعہ کچھ تابعین سے بھی بیان کیا گیا ہے، ان سے مروی روایات کا حال بھی ملاحظہ فرمائیں:
٭سعید بن مسیّب والی روایت (تاریخ دمشق: ۲۰۷/۶۴) میں علی بن زید بن جدعان راوی "ضعیف" ہے۔
٭وہب بن منبہ والی روایت (تاریخ دمشق: ۵۵/۱۹) میں عبد المنعم بن ادریس راوی موجود ہے جوکہ بااتفاقِ محدثین "متروک" اور "کذاب" ہے۔ نیز اس کا باپ ادریس بن سنان، ابو الیاس صنعانی بھی"ضعیف" ہے۔
٭اسی طرح محمد بن اسحاق بن یسار کی بیان کردہ روایت (تاریخ طبری: ۵۳۶/۱) محمد بن حمید رازی کے غیر معتبر ہونے کی وجہ سے" ضعیف" ہے۔
 معلوم ہوا کہ بعض الناس کا یہ مشہور کرنا کہ سیدنا زکریا  نے درخت سے پنا ہ مانگی تھی، سفید جھوٹ ہے۔