تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Wednesday, February 04, 2015

٭ سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے دخول جنت کی کیفیت


سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے دخول جنت کی کیفیت 
 
بینما عائشة في بیتھا إذ سمعت صوتاً فی المدینة فقالت: ماھذا؟ قالوا: عیر لعبدالرحمن بن عوف قدمت الشام تحمل من کل شيء‎، قال: فکانت سبع مائة بعیر، فارتجت المدینة من الصوت فقالت عائشة : سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: قد رأیت عبد الرحمن بن عوف یدخل الجنة حبوأ، فبلغ ذلک عبد لارحمن فقال: ان استطعت لأدخلنّھا قائماً،  فجعلھا بأقتابھا وأحمالھا في سبیل اللہ عزوجل.
” سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر میں تشریف فرما تھیں کہ اس دوران انہوں نے مدینہ میں ایک آواز سنی، فرمایا: یہ کیا ہے؟ تو انہیں بتلایا گیا کہ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا قافلہ ہے جو ملک شام سے لوٹا ہے، جس میں سات سو اونٹ تھے، جو بہت سی چیزوں سے لدھے ہوئے تھے۔ (اس کی) آواز سے مدینہ لرز اٹھا، پس عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے  رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ:  میں عبد الرحمٰن بن عوف کو جنت میں داخل ہوتے ہوئے اس حال میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ سرین کے بل گھسٹے ہوئے داخل ہورہے ہیں۔ پس یہ (خبر) سیدناعبد الرحمٰن بن عوف تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا: اگر میرے لئے ممکن ہوا تو میں ضرور کھڑا  ہوکر جنت میں داخل ہوں گا، پس آپ نے وہ سارے (اونٹ) ان کے پالان، ان کے لدان (یعنی تمام ساز وسامان) سمیت اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔“
 (مسند احمد: ج ۶ص۱۱۵ح۲۵۳۵۳، ۲۴۸۴۲،المعجم الکبیر: ج۱ص۱۲۹ح۲۶۴، معرفة الصحابة:ج۱ص۳۱)
موضوع (من گھڑت): یہ منکر اور جھوٹا قصہ ہے۔
۱:اس  کی سند میں "عمارہ بن زاذان" راوی ہے۔
٭اس سے متعلق امام احمد  رحمہ اللہ نے فرمایا:" منکر حدیثیں روایت کرتا ہے۔"، ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا:"اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی۔"، امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا: "ضعیف ہے۔"، امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:" اکثر اوقات یہ اپنی حدیث میں مضطرب ہوتا ہے۔" اور حافظ الساجی رحمہ اللہ نے فرمایا: "اس میں ضعف ہے، یہ کچھ نہیں اور نہ ہی حدیث میں قوی ہے۔"
دیکھئے: تہذیب التہذیب (ج۷ص۳۶۵) ابن الجوزی کی الضعفاء (ج۲ص۲۰۳)، عقیلی کی الضعفاء الکبیر (ج۳ص۳۱۵) اور ابن عبد الہادی کی بحر الدم (ص۳۱۰)
٭ابو حاتم الرازی نے کہا عمارہ سے حجت نہیں لی جاتی اور اس روایت کو الجراح بن منہال نے اپنی سند سے عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "اے ابن عوف ! بے شک تم مالدار لوگوں میں سے ہو، تم جنت میں داخل نہیں ہوگے مگر سرین کے بل سرکتے ہوئے، تم اپنے رب کو قرض دو وہ تمہارے دونوں قدموں کو آزاد کردے گا۔"
٭امام نسائی رحمہ اللہ نے کہا: یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے اور  "الجراح" (راوی) متروک الحدیث ہے، یحییٰ بن معین رحمہ اللہ  نے فرمایا: "جراح" کی حدیث کچھ نہیں۔، ابن المدینی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کی حدیث لکھی نہ جائے۔، ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ جھوٹ بولتاتھا۔،  دارقطنی  رحمہ اللہ نے فرمایا: ابن اسحاق نے اس سے روایت کی اور (تدلیس کرتے ہوئے) اس کے نام کوالٹ  پلٹ دیا اور کہا:  منہال بن الجراح (جب کہ فی الحقیقت اس کا نام الجراح بن منہال  ہے) اور یہ متروک ہے۔
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے القول المسدد (ص۲۸) میں فرمایا: جو کچھ میں سمجھتا ہوں، کلام میں وسعت کی گنجائش نہیں پس ہمارے لئے امام احمد کی یہ گواہی کافی ہے کہ یہ روایت جھوٹی ہے، اس کا اولین محمل یہ ہے کہ ہم کہیں کہ یہ ان احادیث میں سے ہے جن کے متعلق امام احمد نے فرمایا کہ یہ روایت لائق بیان  نہیں اور جھوٹی ہے۔
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ (ج۷ص۱۶۴) میں فرمایا: عمارہ بن زاذان الصیدلانی نے اس (حدیث کو بیان) کرنے میں تفرد کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔
[یہ تحقیق  کمی و بیشی کے ساتھ شیخ ابو عبد الرحمن الفوزی کی کتاب "مشہور  واقعات کی حقیقت"  سے لی گئی ہے ]