تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Wednesday, December 10, 2014

٭ قبر نبی ﷺ کی زیارت


قبر نبی ﷺ کی زیارت گویا نبی ﷺ کی حیات میں زیارت
 
سیدنا حاطب رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من زارني بعد موتي، فکأنما زارني في حیاتي، ومن مات بأحد الحرمین، بعث آمنا یوم القیامة
"جس شخص نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی، اس نے گویا میری زندگی میں زیارت کی اور جو شخص حرمین میں سے کسی ایک میں فوت ہوگا،قیامت کے روز امن کی حالت میں اٹھایا جائے گا۔"
(سنن دارقطنی: ۲۷۷/۲، شعب الایمان للبیہقی:۴۸۸/۳)

ضعیف: اس کی سند "ضعیف" ہے۔
٭ حافظ عبد الرؤف مناوی رحمہ اللہ نے اسے "معلول" قرار دیا ہے۔ (الفتح السماوي في تخریج أحادیث القاضي البیضاوي: ۳۸۱/۱)
اس روایت میں دو علتیں ہیں:
۱: ہارون بن ابو قزعہ راوی "منکر الحدیث" ہے۔
٭ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"یہ منکر الحدیث راوی ہے" (الضعفاء الکبیر للعقیلی: ۳۶۲/۴ وسندہ صحیح)
٭امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "ہارون ابو قزعہ غیر منسوب راوی ہے۔ اس نے بہت  تھوڑی روایات بیان کی ہیں، جن (کے منکر ہونے) کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے۔" (الکامل  في ضعفاء الرجال: ۱۲۸/۷)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اسے امام یعقوب بن شیبہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام عقیلی، امام ساجی اور امام ابن جارود نے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔" (لسان المیزان: ۱۸۱/۶)
٭ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے "الثقات (۵۸۰/۷)" میں ذکر کیا ہے جو کہ ان کا تساہل ہے۔ بات وہی ہے جو جمہور محدثین نے فرمائی ہے۔
۲: رجل من آلِ حاطب "مجہول" و "مبہم" ہے۔
٭اسی لیے تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی سند میں مجہول راوی ہے۔" (التلخیص الحبیر: ۲۶۶/۲)
لہٰذا اس روایت کے باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
تنبیہ: احمد بن مروان بن محمد الدینوری المالکی (ضعیف جداً) کی کتاب "المجالسة وجواھر العلم" (۱۳۰) میں یہ روایت ھارون بن أبي قزعة عن مولی حاطب بن أبي بلتعة عن حاطب رضي اللہ عنہ کی سند مروی ہے۔
٭ہارون ضعیف ہے اور مولیٰ حاطب مجہول ہے۔
شفاء السقام (ص۱۳۹) میں اس روایت کی سند گڑبڑ ہوگئی ہے۔
 
الحاصل: عرض ہے کہ روضۂ  رسول ﷺ کی طرف خاص طور سفر کرنا کسی صحابی، تابعی یا تبع تابعی سے ثابت نہیں ہے اور ایک حدیث میں تین مساجد کے علاوہ سفر کرنے کی ممانعت آئی ہے ، اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی نے فرمایا: "والحق عندي أن القبر و محل عبادۃ ولي من اولیاء اللہ والطور کل ذلک سواء فی النھي۔ واللہ أعلم"
اور میرے نزدیک حق یہ ہے کہ قبر، اولیاء اللہ میں سے کسی ولی کا محلِ عبادت اور کوہِ طور سب ممانعت میں برابر ہیں۔ واللہ اعلم (حجۃ اللہ البالغہ ج۱ص۱۹۲، من ابواب الصلوٰۃ)
معلوم ہوا کہ شاہ ولی اللہ کے نزدیک خاص قبر کی نیت سے سفر کرنا ممنوع ہے۔
تنبیہ: جو شخص مدینہ نبویہ جانے کی سعادت حاصل کرے تو اسے چائیے کہ مسجدِ نبوی (علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام) جاکر دو رکعتیں پڑھے اور روضہ ٔ رسول کی زیارت کرے، نماز والا درود پڑھے اور اگر حجرہ مبارکہ کا دروازہ اُس کے لئے کھل جائے اور خوش قسمتی سے وہ قبر مبارک کے پاس پہنچ جائے تو السلام علیک یا رسول اور الصلوٰۃ علیک یا رسول اللہ بھی پڑھے جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے موقوفاً ثابت ہے۔ (دیکھئے فضائلِ درود وسلام ص۱۴۱، فضل الصلوٰۃ علی النبیﷺ بتحقیق زبیر علی زئی:۱۰۰)
لیکن یاد رہے حجرۂ مبارک کے باہر تخاطب والے یہ الفاظ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین وغیرہم سے ثابت نہیں ہیں، لہٰذا باہر صرف نماز والا درود پڑھنا چاہئے۔