تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Thursday, November 13, 2014

٭ صحابی ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ پر ایک بہتان اور اس کا رد

صحابی ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ پر ایک بہتان اور اس کا رد
 سورہ توبہ آیت : ۷۵ تا ۷۷ کی تفسیر میں ایک روایت بیان کی جاتی  ہے کہ :
ثعلبہ بن حاطب انصاری رضی اللہ عنہ ایک دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : اے اﷲ کے  رسول! اﷲ تعالیٰ سے میرے مال میں فراوانی اور میری   رزق میں وسعت وفراخی کی دعا کیجئے ۔ آپ نے فرمایا: ثعلبہ ! اﷲ تجھ پر رحم کرے ، وہ کم جس کا شکر ادا کرسکو اس زیادہ سے بہتر ہے جس کے تحمل کی تم میں طاقت نہ ہو ۔ یہ دوبارہ آئے اوراپنی بات دہرائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا : کیا تمھارے لئے مجھ میں بہترین اسوہ نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں چاہوں کہ پہاڑ سونا اور چاندی بن کر میرے ساتھ ساتھ چلیں تو چلیں گے ۔ چنانچہ خاموش ہوگئے۔
            کچھ دنوں کے بعد ایک دفعہ پھر آئے اور طلب مال کی وہی پرانی بات دہرائی اور کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر اﷲ تعالیٰ نے مجھےمال عطا کیا تو میں ہر حقدار کو اس کا حق ادا کروں گا ۔ چنانچہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی ۔
  راوی کا بیان ہے کہ انھوں نے بکری پالی۔ اس کی ایسی افزائش ہوئی جیسے کیڑوں کی ہوتی ہے۔ اب وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف صلاة  ظہر اور عصر پڑھتے تھے بقیہ صلاتیں  اپنی بکریوں میں پڑھاکرتے تھے پھر مزید افزائش ہوئی تو اور سست ہوگئے۔ جمعہ اور جماعت میں بھی حاضر نہیں ہوتے تھے۔ ہاں جب جمعہ کا دن آتا لوگوں سے مل کر خبریں پوچھ لیا کرے ۔             ایک دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ کا ذکر کیا اور ان کے بارے میں لوگوں سے دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ اے اﷲ کے رسول! ثعلبہ نے اتنی بکریاں پال لی ہیں کہ ان کے لئے وادیاں تنگ ہورہی ہیں ۔اﷲ کے رسول ﷺ نے کہا: ہائے ثعلبہ! ہائے ثعلبہ! ہائے ثعلبہ!۔
   اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے فرضیت زکاة کی آیت نازل فرمائی اوراﷲ کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم کے ایک اور بنو جہینہ کے ایک (دو آدمیوں) کو زکاة کی وصولی کے لئے بھیجا۔ انھیں نصاب زکاة لکھ کردیا اور کہا : ثعلبہ بن حاطب اور بنو سلیم کے فلاں شخص کے پاس جانا اور ان دونوں کے صدقات وصول کرنا۔             چنانچہ وہ دونوں ثعلبہ کے پاس پہنچے۔ ان کو اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنایا اور زکاة طلب کی۔ ثعلبہ نے کہا: یہ تو جزیہ ہے۔ یہ تو جزیہ جیسی بات ہے۔ جاؤ دوسروں سے فارغ  ہوکے میرے پاس آنا۔ وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔ جب بنوسلیم کے آدمی نے ان کے بارے میں سنا تو اس نے اپنے اچھے اچھے اونٹ صدقہ کے لئے الگ کردئیے۔اور صدقہ کے ساتھ ان  دونوں کا استقبال کیا۔ انھوں نے کہا: یہ تم پر واجب نہیں (یعنی اوسط سے بڑھ کر اچھے اچھے اونٹ تم پر واجب نہیں ) ۔ اس نے کہا اسے لے لو اسے میں بہ طیب خاطر دے رہا ہوں۔
 وہ دونوں دوسرے لوگوں کے پاس بھی گئے اور ان سے زکاة وصول کی۔ پھر ثعلبہ کے پاس لوٹ کر آئے تو اس نے کہا : مجھے خط دکھاؤ۔ اسے پڑھا پھر کہا : یہ تو جزیہ ہے۔ یہ تو جزیہ جیسی بات ہے ۔ تم دونوں جاؤ میں غور کرتا ہوں۔
جب وہ دونوں واپس ہوئے اور اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ نے ان کو دیکھ کر گفتگو سے پہلے ہی کہا : ہائے ثعلبہ! پھر بنو سلیم کے آدمی کے لئے خیر وبرکت کی دعا کی ۔  اس کے بعد ان دونوں نے آپ کو ثعلبہ کے بارے میں تفصیلات بتائیں ۔ پھر قرآن پاک کی یہ آیات نازل ہوئیں ۔
﴿وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ (۷۵) فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ (۷۶) فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ [التوبة: ۷۵ - ۷۷]           
ترجمہ: (ان میں بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے اﷲ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر  رہیں گے۔ مگر جب اﷲ نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انھیں اس کی پروا تک نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اﷲ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اﷲ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھادیا ،جو اﷲ کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا)۔
 جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثعلبہ کے قرابت داروں میں سے ایک شخص موجود تھا۔ وہ یہ بات سن کے بھاگتا ہوا ثعلبہ کے پاس پہنچا اور کہا : ثعلبہ تم برباد ہوئے۔ تمھارے بارے میں ایسی اور ایسی آیت نازل ہوئی ہے۔ ثعلبہ بہت پچھتائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے ۔ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہا : اﷲتعالیٰ نے مجھے تمھارا صدقہ قبول کرنے سے منع کردیا ہے چنانچہ وہ حسرت وندامت سے اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگے ۔ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: یہ تو خود تمھارا عمل ہے۔ میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا لیکن تم نے میری ایک نہ مانی۔ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صدقہ قبول کرنے سے انکار کردیا تو وہ اپنے گھر لوٹ آئے ۔
 پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور آپ نے ان کا صدقہ قبول نہیں کیا اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آیا۔ ثعلبہ ان کے پاس بھی اپنا صدقہ لے کر آئے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی حیثیت اور انصار میں اپنے مقام کا حوالہ دے کر اپنا صدقہ قبول کرنے کی درخواست کی ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم سے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا، میں کیسے قبول کرلوں؟ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی وفات پاگئے اور صدقہ قبول نہیں کیا ۔ 
 پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ثعلبہ ان کے پاس آئے اور کہا: اے امیرالمؤمنین ! میرا صدقہ قبول فرمائیے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اسے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا،نہ ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ، میں کیسے قبول کرلوں؟ چنانچہ یہ بھی وفات پاگئے اور صدقہ قبول نہیں کیا ۔
 پھر عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا۔ ثعلبہ ان کے پاس آئے اور اپنا صدقہ قبول کرنے کی درخواست کی۔ انھوں نے جواب دیا : اسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا ، نہ ہی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم نے ،میں کیسے قبول کرلوں؟ چنانچہ اسی حالت میں عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ثعلبہ ہلاک ہوا ۔ 
 
بہتانِ عظیم کی تحقیق:
تفسیر ابن کثیر (ج۳ص۴۱۶، ۴۱۷)  میں یہ واقعہ بحوالہ تفسیر ابن جریر طبری (۱۳۰/۱۰، ۱۳۱) و تفسیر ابن ابی حاتم الرازی (۱۸۴۷/۶- ۱۸۴۹) "معان بن رفاعة عن علي بن زید عن أبی عبد الرحمن القاسم بن عبد الرحمن عن أبی أمامة الباھلي رضی اللہ عنہ" کی سند سے مذکور ہے۔ 
سخت ضعیف :٭تفسیر ابن کثیر کے محقق جناب عبد الرزاق المھدی لکھتے ہیں: "إسنادہ واہ بمرۃ والمتن باطل۔ ۔ ۔ وإسنادہ ضعیف جداً" یہ انتہائی کمزور سند ہے اور متن باطل ہے۔ ۔ ۔ اور اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ (حاشیہ تفسیر ابن کثیر: ۴۱۷/۳)
۱: اس کا راوی علی بن یزید الالھانی سخت ضعیف راوی ہے۔
٭امام بخاری فرماتے ہیں: "منکر الحدیث" (کتاب الضعفاء بتحقیق زبیر علی زئی: تحفۃ الاقویاء ص۷۹ت۲۶۲)
امام بخاری کے نزدیک اس شخص کی روایت حلال نہیں ہے جسے وہ "منکر الحدیث" کہہ دیں (دیکھئے لسان المیزان ج۱ص۲۰)
٭امام نسائی نے فرمایا: "متروک الحدیث" (کتاب الضعفاء والمتروکین: ۴۳۲)
متروک راوی کی روایت بغیر تنبیہ کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (ص۳۸)
۲: اس سند کا دوسرا راوی معان بن رفاعہ: لین الحدیث (یعنی ضعیف) ہے۔ (تقریب : ۶۷۴۷)
٭ اس روایت پر تفصیلی جرح کے لئے عداب محمود الحمش کی کتاب "ثعلبة بن حاطب، الصحابي المفتری علیه" دیکھیں (ص۶۷ تا ۷۳)
شواہد (تائید والی روایتوں) کی تحقیق:
(1) : "محمد بن سعد العوفي عن أبیه عن عمه عن أبیه عن أبیه عن ابن عباس رضی اللہ عنہما" کی سند سے ایک مختصر روایت اس کو مؤید ہے۔ (دیکھئے تفسیر طبری : ۱۳۰/۱۰ و تفسیر ابن ابی حاتم: ۱۸۴۹/۶ح۱۰۵۰۰)
سخت ضعیف :یہ سند ایک دم ساقط ہے۔ اس کی حیثیت محدثین کے نزدیک لید (گوبر) کے برابر بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ سند میں کسی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ نیز یہ پورا خاندان عوفیوں کا خاندان ہے جس کے بارے میں محدثین کا فیصلہ ہے کہ وہ سب کے سب ضعیف ہیں۔دیکھئے  (تاریخ بغداد ٥/٣٢٢،٨//٢٩،٩/١٢٦،المجروحین ١/٢٤٣، ٢٤٦، ٢/١٧٦،  لسان المیزان٢/٢٧٨،٣/١٨،٥/١٧٤)
اس روایت میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نیچے ساری روای ضعیف ہیں۔
٭محمد بن سعد العوفی ضعیف عند الجمہور  ہے۔
٭سعد  بن محمد بن الحسن العوفی جہمی (سخت گمراہ) ہے۔ (دیکھئے لسان المیزان: ۱۹/۳) کسی نے بھی اس کی توثیق نہیں کی۔
٭ سعد الوفی کا چچا الحسین بن الحسن بن عطیۃ العوفی ضعیف و مجروح ہے۔ (دیکھئے لسان المیزان: ۲۷۸/۲)
٭ الحسن بن عطیۃالعوفی ضعیف ہے۔ (تقریب : ۱۲۵۶)
٭عطیۃ العوفی ضعیف الحفظ و مدلس ہے۔ (دیکھئے طبقات المدلسین بتحقیق زبیر علی زئی: ۱۲۲/۴ ضعفہ الجمہور)
 
(2) : "ابن جریر الطبري قال: حدثنا ابن حمید قال: ثنا سلمة عن ابن إسحاق عن عمرو بن عبید عن الحسن" إلخ (تفسیر طبری: ۱۳۳/۱۰)
موضوع: ٭ اس میں محمد بن حمید الرازی: "حافظ ضعیف، وکان ابن معین حسن الرأی فیه" ہے (تقریب: ۵۸۳۴)
اب معین رحمہ اللہ کی حسن رائے جمہور کے مقابلے میں مردود ہے۔
٭محمد بن اسحاق بن یسار صدوق مدلس ہے اور روایت معنن (عن سے) ہے۔
٭عمرو بن عبید المعتزلی "کذاب" ہے۔(تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء للبخاری:ص۸۱ت۲۶۹، و تہذیب التہذیب: ۷۰/۸، ومیزان الاعتدال: ۲۷۳/۳)
 
(3) :قتادہ تابعی سے روایت ہے کہ : "ذکرلنا أن رجلاً من النصار أتی مجلس من الأنصار فقال: لئن آتاہ اللہ مالاً لیؤدین إلی کل ذي حق حقه فآتاہ اللہ مالاً فصنع فیه ماتسمعون"
ہمیں
بتایا گیا ہے کہ ایک انصاری آدمی انصاریوں کی مجلس میں آیا اور کہا: اگر اللہ مجھے مال دے تو  میں ہر حق دار تک اس کا حق پہنچا دوں گا۔ پس اللہ نے اسے مال دیا تو اس نے وہ کام کیا جو آپ سن رہے ہیں۔ (تفسیر طبری: ۱۳۱/۱۰ من طریق سعید  عن قتادہ بہ)
ضعیف:  اس میں سعید بن ابی عروبہ ثقہ مدلس ہے، دیکھئے زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین (۲/۵۰) و تقریب التہذیب (۳۳۶۵) لہٰذا یہ سند ضعیف ہے،
قتادہ سے ثابت نہیں ہے۔
تنبیہ: اس ضعیف روایت  ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ کا نام مذکور نہیں ہے۔
(4) :مجاہد تابعی سے روایت ہے کہ: "رجلان خرجا علی ملا قعود فقالا: واللہ لئن رزقنا اللہ لنصدقن، فلما رزقھم بخلوابه"
دہ آدمی ایک گروہ کے پاس سے گزرے جو بیٹھے ہوئے تھے تو ان دونوں نے کہا: واللہ اگر ہمیں اللہ رزق دے تو ہم ضرور صدقہ کریں گے۔ پس جب اللہ نے انہیں رزق دیا تو انہوں نے بخل
کیا  (تفسیر طبری: ۱۳۲/۱۰، وتفسیر ابن ابی حاتم: ۱۸۴۹/۶ح۱۰۵۰۱من حدیث ابن ابی یجیح عن مجاہد بہ)
ضعیف:  یہ روایت ابن ابی نجیح کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
٭ عبد اللہ بن ابی نجیح ثقہ مدلس ہے۔ دیکھئے طبقات المدلسین بتحقیق زبیر علی زئی (۳/۷۷) وتقریب التہذیب (۳۶۶۲)
تنبیہ: اس ضعیف روایت میں بھی ثعلبہ رضی اللہ عنہ کا نام موجود نہیں ہے۔
تحقیق کا خلاصہ: ان تمام روایات کی تحقیق کا نتیجہ اور خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا ثعلبہ بن حاطب الانصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ قصہ بے بنیاد و باطل ہے۔ جسے بعض قصہ گو حضرات مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ اس مردود قصے سے سیدنا ثعلبہ رضی اللہ عنہ بری ہیں۔
تنبیہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحقیق میں ثعلبہ بن حاطب الانصاری البدری رضی اللہ عنہ دوسرے صحابی ہیں اور ثعلبہ بن حاطب اور ابن ابی حاطب الانصاری، غیر البدری، رضی اللہ عنہ دوسرے صحابی ہیں۔ دیکھئے الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (طبع بیت الافکار ص۱۵۶ت۹۷۰)
 
ماہرین فن کی رائے :
             جن علماء نے اس قصہ کے ضعیف اور باطل ہونے کی صراحت کی ہے ذیل میں ان کا نام مع حوالہ درج ہے :
١۔ امام ابن حزم (وفات ٤٥٦ھ) محلی ١١/ ٢٠٧،٢٠٨
٢۔ امام بیہقی (وفات ٤٥٨ھ) فیض القدیر ٤/ ٥٢٧
٣۔ ابن الاثیر (وفات ٦٣٠ھ) أسد الغابہ ١/ ٢٨٥
٤۔ قرطبی (وفات ٦٧١ھ ) تفسیر ٨/٢١٠
٥۔ حافظ ذہبی(وفات ٧٤٨ھ) تجرید أسماء الصحابہ ١/٦٦
٦۔ حافظ عراقی (وفات ٨٠٦ھ) المغنی فی تخریج الاحیاء ٣/٣٣٨
٧۔ حافظ ہیثمی (وفات ٨٠٧ھ) مجمع الزوائد ٧/ ٣٢
٨۔ حافظ ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ) اصابہ ١/١٩٨، فتح الباری ٣/٢٢٦، تخریج الکشاف ٤/٧٧
٩۔ علامہ ناصر الدین ألبانی (وفات ١٤٢٠ھ) سلسلہ ضعیفہ/٤٠٨١

 اس قصے کے بارے میں مزید پڑھنے کیلئے درج ذیل ربط ملاحظہ کریں