تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Saturday, November 29, 2014

٭ تفسیر ابن عباس کی تحقیق


تفسیر ابن عباس کی تحقیق
 
"تنویر المقباس فی تفسیر ابن عباس " کے نام سے  مشہور تفسیر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت نہیں ہے بلکہ یہ محمد بن مروان السدی اور کلبی کی من گھڑت تفسیر ہے جسے  انہوں نے کذب بیانی کرتے ہوئے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب کردیا ہے۔ اس تفسیر کے شروع میں اس کی جو سند لکھی ہوئی ہے، وہ کچھ یوں ہے: "(أخبرنا) عبد الثقة ابن المأمور الھروي قال أخبرنا أبي قال أخبرنا أ بو عبد اللہ قال أخبرنا أبو عبید اللہ محمود بن محمد الرازي قال أخبرنا عمار ابن عبد المجید الھروي قال أخبرنا علي بن إسحاق السمرقندي عن محمد ابن مروان عن الکلبي عن أبي صالح عن ابن عباس۔۔۔۔۔"
(تنویر المقباس ص۲)

موضوع (من گھڑت): تفسیر ابن عباس  نامی کتاب ثابت نہیں بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے، کیونکہ:
۱:اس کا پہلا راوی ابو صالح باذام ہے، جسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
٭امام بخاری نے اسے کتاب الضعفاء میں ذکر کیا۔ (تحفۃ الاقویاء ص۲۱)
٭ابو حاتم الرازی نے کہا: یکتب حدیثه ولا یحتج به (الجرح والتعدیل: ۴۳۲/۲)
٭امام نسائی نے کہا: "ضعیف کوفي" (الضعفاء والمتروکین: ۷۲)
٭حافظ ذہبی نے فرمایا: "ضعیف الحدیث" وہ حدیث میں ضعیف ہے۔ (دیوان الضعفاء: ۵۴۴)
٭حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا: "ضعیف یرسل" (تقریب التہذیب: ۶۳۴)
٭امام ابن حبان نے فرمایا: "یحدث عن ابن عباس ولم یسمع منه" وہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے حدیثیں بیان کرتا تھا، اور ان سے سنا نہیں تھا۔ (کتاب المجروحین لابن حبان: ۱۸۵/۱)
یعنی یہ سند منقطع ہے۔
٭بعض علماء نے باذام مذکور کی  توثیق کر رکھی ہے مگر جمہور محدثین کی جرح کے مقابلے میں یہ توثیق مردود ہے۔

۲: اس کا دوسرا راوی محمد بن السائب الکلبی "کذاب " و "متروک"ہے:
٭سلیمان التیمی نے کہا: "کان بالکوفة کذابان أحدھما الکلبي" کوفی میں دو کذاب تھے، ان میں سے ایک کلبی ہے۔ (الجرح والتعدیل: ۲۷۰/۷ وسندہ صحیح)
٭قرہ بن خالد نے کہا: "لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کلبی جھوٹ بولتا ہے۔" (الجرح والتعدیل: ۲۷۰/۷ وسندہ صحیح)
٭سفیان ثوری نے کہا: "ہمیں کلبی نے بتایا کہ تجھے جو بھی میری سند سے عن ابی صالح عن ابن عباس بیان کیا جائے تو وہ جھوٹ ہے اسے روایت نہ کرنا" (الجرح والتعدیل: ۲۷۱/۷ وسندہ صحیح)
٭یزید بن ربیع نے کہا: "کلبی سبائی تھا" (الکامل لابن عدي: ۲۱۲۸/۵وسندہ صحیح)
٭محمد بن مہران نے کہا: "کلبی کی تفسیر باطل ہے" (الجرح والتعدیل: ۲۷۱/۷ وسندہ صحیح)
٭جوزجانی نے کہا: "کذاب ساقط" (احوال الرجال: ۳۷)
٭یحییٰ بن معین نے کہا: لیس بشئي، کلبي کچھ چیز نہیں ہے۔ (تاریخ ابن معین، روایۃ الدوری: ۱۳۴۴)
٭ابو حاتم الرازی نے کہا: "اس کی حدیث کے متروک ہونے پر لوگوں کا اجماع ہے۔ اس کے ساتھ وقت ضائع نہ کیاجائے وہ حدیث میں گیا گزرا ہے۔ " (الجرح والتعدیل: ۲۷۱/۷)
٭حافظ ابن حجر نے کہا: "المفسر متھم بالکذب ورمي بالرفض" (تقریب التہذیب: ۵۹۰۱)
٭حافظ ذہبی نے کہا: "ترکوہ" یعنی (محدثین نے) اسے ترک کردیا ہے۔ (المغنی فی الضعفاء: ۵۵۴۵)

۳: اس کا تیسرا راوی محمد بن مروان السدی  الکوفی ہے،جو السدی الصغیر یا السدی الصغر کے لقب سے معروف ہے، اس کے بارے میں:
٭ امام ابن نمیر نے کہا:" کذاب ہے" (الضعفاء الکبیر للعقیلی: ۱۳۶/۴)
٭امام بخاری نے کہا: سکتواعنه یہ متروک ہے (التاریخ الکبیر: ۲۳۲/۱)؛ مزید لکھتے ہیں: "لایکتب حدیثه البتة، اس کی حدیث بالکل لکھی نہیں جاتی" (الضعفاء الصغیر: ۳۵۰)
٭یحییٰ بن معین نے کہا: "لیس بثقه" وہ ثقہ نہیں ہے۔ (الجرح والتعدیل: ج۸ص۸۶وسندہ صحیح)
٭ابو حاتم رازی نے کہا: "وہ حدیث میں گیا گزرا ہے، متروک ہے، اس کی حدیث بالکل نہیں لکھی جاتی" (الجرح والتعدیل: ۸۶/۸)
٭امام نسائی نے کہا: "یروي عن الکلبي، متروک الحدیث" وہ کلبی سے روایت کرتا ہے، حدیث میں متروک ہے۔ (الضعفاء والمتروکون: ۵۳۸)
٭یعقوب بن سفیان الفارسی نے کہا: "وھو ضعیف غیر ثقه" (المعرفۃ والتاریخ: ۱۸۶/۳)
٭امام ابن حبان نے کہا: "یہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں بیان کرتا تھا، پرکھ کے بغیر اس کی روایت لکھنا حلال نہیں ہے۔ کسی حال میں بھی اس سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے۔" (المجروحین: ۲۸۶/۲)
٭حافظ ہیثمی نے کہا: "وھو متروک" (مجمع الزوائد: ۹۹/۸)؛ مزید لکھتے ہیں: "أجمعوا علی ضعفه" اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ (مجمع الزوائد: ۲۱۴/۱)
٭حافظ ذہبی نے کہا: "کوفي متروک متھم" (دیوان الضعفاء: ۳۹۶۹)
٭حافظ ابن حجر نے کہا: "متھم بالکذب" (تقریب التہذیب: ۶۲۸۴)

۴:عمار بن عبد المجید الہروی کی توثیق نامعلوم ہے۔
۵: ابو عبید اللہ محمود بن محمد الرازی کی توثیق مطلوب ہے۔
۶:ابو عبد اللہ کون تھا؟ تعین و توثیق مطلوب ہے۔
۷:المأمور الہروی کون تھا؟ تعین وتوثیق مطلوب ہے۔
۸: عبد اللہ الثقہ کون تھا؟ اسماء الرجال کی کتابوں سے تعارف مطلوب ہے۔

فائدہ:
٭احمد رضاخان صاحب  نے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے لکھا ہے: "یہ تفسیر کہ منسوب بسیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہے نہ اُن کی کتاب ہے نہ اُن سے ثابت، یہ بسند محمد بن  مروان عن الکلبی عن ابی صالح مروی ہے اور ائمہ دین اس سند کو فرماتے ہیں کہ یہ سلسلۂ کذب ہے۔۔۔۔۔" (فتاویٰ رضویہ ج۲۹ص۳۹۶)
٭ جسٹس تقی عثمانی، قرآنی علوم پر مبنی اپنی معروف کتاب "علوم القرآن" کے صفحہ نمبر ۴۵۸ پر "مروجہ تفسیر ابن عباس (رض) کی حیثیت" کے زیر عنوان لکھتے ہیں: "ہمارے زمانے  میں ایک کتاب"تنویر المقباس فی تفسیر ابن عباس" کے نام سے شائع ہوئی ہے جسے آج کل عموماً "تفسیر ابن عباس" کہا اور سمجھا جاتا ہے، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں کیونکہ یہ کتاب۔۔۔۔
                           محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس
کی سند سے مروی ہے جسے محدثین نے "سلسلۃ الکذب (جھوٹ کا سلسلہ)" قرار دیا ہے لہٰذا اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔”
٭ امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ کلبی کی تفسیر اول سے لے کر آخر تک سب  جھوٹ ہے اس کو پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔ (ازالۃ الریب ص۳۱۶،۳۱۷ بحوالہ تذکرۃ الموضوعات: ص۸۲)
٭علامہ محمد طاہر الحنفی لکھتے ہیں کہ کمزور ترین روایت فن تفسیر میں کلبی عن ابی صالح عن ابن عباس ہے اور ۔ ۔ ۔ ۔ (ازالۃ الریب ص۳۱۶،۳۱۷ بحوالہ تذکرۃ الموضوعات: ص۸۲واتقان ج۲ص۱۸۹)
٭امام بیہقی نے تفسیر ابن عباس (تنویر المقباس ص۱۳۰) سے ایک آیت کی تفسیر نقل کرکے فرمایا: "پس یہ روایت منکر ہے۔" (الاسماء والصفات ص۴۱۳، دوسرا نسخہ ص۵۲۱)
٭امام مروان بن محمد نے فرمایا: "کلبی کی تفسیر باطل ہے" (الجرح التعدیل: ۲۷۱/۷، وسندہ صحیح)