تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Monday, November 24, 2014

٭ حدیثِ طیر/ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور پرندے کاگوشت


حدیثِ طیر
 
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
إن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان عندہ طائر، فقال: "اللھم ائتني بأحب خلقک إلیک یأکل معي من ھذا الطیر" فجاء أبوبکر، فردہ، وجاء عمر، فردہ، وجاء علي، فأذن له
” نبی کریمﷺ کے پاس ایک (پکا ہوا) پرندہ تھا۔ آپ ﷺ نے دعا کی: اے اللہ! اپنے اس بندے کو بھیج دے، جو تجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے، وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، لیکن آپﷺ نے انہیں واپس بھیج دیا۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو انہیں بھی بھیج دیا۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے، تو آپ ﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ “
(السنن الکبریٰ للنسائی: ۱۰۷/۵، ح۸۳۹۸، خصائص علي بن أبي طالب للنسائي:۱۰)
 
ضعیف: یہ "ضعیف" اور "منکر" روایت ہے، کیونکہ:
۱: اس کا راوی مسہر بن عبد الملک کمزور راوی ہے۔ (تقریب التھذیب لابن حجر: ۶۶۶۷)
٭اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "فیه بعض النظر" اس پر بعض محدثین نے کلام کی ہے۔ (التاریخ الصغیر: ۲۵۰/۲)
٭امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "والمسھر غیر ماذکرت، ولیس بالکثیر" مسہر نے اس کے علاوہ بھی روایات بیان کی ہیں، مگر یہ کثیر الروایہ نہیں ہے۔ (الکامل في الضعفاء الرجال:
۴۵۸/۶)
٭امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے "الثاقت" (۱۹۷/۹) میں ذکر کرکے لکھا ہے: "یخطیٔ ویھم" یہ روای غلطیوں اور اوہام کا شکار تھا۔
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے "لین" (کمزور راوی) کہا ہے۔ (المقتنٰی في سرد الکنٰی: ۵۴۱۹)
نیز انہوں نے اسے "لیس بالقوی" (قوی نہیں ہے) بھی کہا ہے۔ (المغني في الضعفاء: ۶۵۸/۲)
 واضح طور  اسے صرف حسن بن حماد نصیبی نے ثقہ کہا ہے۔ (مسند أبي یعلٰی: ۴۰۵۲، الکامل في الضعفاء الرجال لابن عدي: ۴۵۷/۶ وسندہ صحیح)
 تنبیہ: اس روایت کی بہت ساری سندیں ہیں، وہ ساری کی ساری "ضعیف، موضوع و من گھڑت" ہیں۔ صرف سیدنا انس رضی اللہ والی روایت کی ۳۴ کے قریب سندیں ہیں۔
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "فھٰذہٖ طرق متعددۃ عن أنس بن مالک، وکل منھا فیه ضعف ومقال‮" سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث کی یہ مختلف سندیں ہیں۔  ان میں سے ہر ایک میں ضعف و مقال ہے۔ (البدایة والنھایة: ۳۵۳/۷)
٭امام حاکم رحمہ اللہ نے جب اس روایت کے دفاع میں یہ کہا کہ: "وقد رواہ عن أنس أکثر من ثلاثین نفسا" اس روایت کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے تیس سے زائد راویوں نے بیان  کیا ہے۔
تو ان کے ردّ وجواب میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا: "فصلھم بثقة یصح الإسناد إلیه" ان میں سے کوئی ایک ثقہ راوی ایسا بتادیں، جس تک صحیح سند پہنچ رہی ہو۔ (البدایة والنھایة  لابن کثیر: ۳۵۱/۷)
متن کا اضطراب: اس حدیث کی تمام  سندیں    باطل ومردود ہیں  ہی ساتھ ساتھ اس کے متن میں بھی اضطراب واختلاف پایا جاتا ہے:
۱:پہلا اختلاف یہ ہے کہ یہ کون سا پرندہ تھا؟ مسند ابویعلیٰ اور ابن عدی کی روایت میں حجل، ابن عساکر کی روایت میں حباریٰ، ابن المغازلی کی روایت میں یعاقیب اور ابن المغازلی ہی کی ایک  روایت میں نحامہ جبکہ ابن عساکر کی ایک روایت میں دجاجۃ کا ذکر ہے۔
۲: پرندے کی تعداد میں بھی اختلاف ہے۔ بعض روایات میں اطیار بعض میں طوائر اور بعض میں نحامات کا ذکر ہے۔
۳:اس میں بھی اختلاف ہے کہ پرندہ کس نے ہدیہ کیا تھا؟ عقیلی اور طبرانی کی روایت میں سیدہ ام ایمن  رضی اللہ عنہا کا ذکر ہے، ابن عساکر  اور ابن المغآزلی کی روایت میں انصار کی ایک عورت کا ذکر ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا انصاریہ نہیں تھیں۔

محدثین کرام اور حدیث طیر:
جمہور محدثین کرام رحمہم اللہ نے اس روایت کو "ضعیف" کہا ہے:
۱: امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وھذا الباب ؛ الروایة لین و ضعیف، ولانعلم فیه شیئاً ثابتاً"
اس بارے میں منقول تمام روایات میں کمزوری اور ضعف ہے، ہمارے علم کے مطابق اس سلسلے میں کچھ بھی ثابت نہیں۔ (الضعفاء الکبیر: ۴۶/۱)
٭نیز فرماتے ہیں: "طرق ھٰذا الحدیث؛ فیھا لین" اس حدیث کی سندوں میں کمزوری ہے۔ (الضعفاء الکبیر: ۱۸۹/۴)
۲:امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "روی عن أنس من وجوہ، وکل من رواہ عنه؛ فلیس بالقوي" اس روایت کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کئی سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے، البتہ  سیدنا انس رضی  اللہ عنہ سے اسے بیان کرنے والے راویوں میں سے کوئی بھی قوی نہیں۔ (مسند البزار: ۷۸۴۸)
۳:امام خلیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "حدیثِ طیر کو کسی ایک بھی ثقہ راوی نے بیان نہیں کیا۔ اسے صرف ضعیف راوی بیان کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام محدثین نے اسے ردّ کیا  ہے۔" (الإرشاد في معرفة علماء الحدیث: ۴۲۰/۱)
۴:حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ، حافظ محمد بن طاہر مقدسی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: "کل طرقهٖ، أي حدیث الطیر، باطلة معلولة" حدیث طیر کی تمام سندیں باطل اور معلول ہیں۔ (العلل المتناھیة: ۲۲۳/۱)
۵: حافظ محمد بن ناصر سلامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ روایت من گھڑت ہے، کیونکہ اس کو ضعیف کوفی راویوں نے مشہور اور مجہول راویوں کے واسطے سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ وغیرہ  سے بیان کیا ہے۔" (المنتظم لابن الجوزي: ۲۷۵/۷)
۶:خود حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس کی سولہ سندوں میں سے ہر ایک کی علت بیان کی اور فرمایا: "ابن مردویہ نے اس کو تقریباً بیس سندوں سے ذکر کیا ہے، مگر وہ تمام کی تمام سخت  ضعیف ہیں اور ان میں خرابی موجود ہے۔" (العلل المتناھیة: ۲۳۳/۱)
۷: حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:" وله طرق؛ کلھا ضعیفة" اس کی کئی سندیں ہیں لیکن سب کی سب ضعیف ہیں۔ (تخریج أحادیث الإحیاء: ص۸۵۵)
۸:شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "إن حدیث الطائر من المکذوبات الموضوعات عند أھل العلم والمعرفة بحقائق النقل” حدیثِ طیر محققین علماء اور اہل فن محدثین کے نزدیک من گھڑت اور جھوٹی ہے۔ (منھاج السنة: ۹۹/۴، وفي نسخة: ۳۷۱/۷)
۹:حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس حدیث پر لوگوں نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ اس کی بہت سی سندیں ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک میں خرابی ہے" (البدایة والنھایة: ۳۵۱/۷، ۳۵۲)
نیز مذکورہ روایت کی بعض سندوں کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگرچہ اس حدیث کے طرق بکثرت ہیں، مگر دل میں اس کی صحت محل نظر ہے۔"(البدایة والنھایة: ۳۵۱/۷، ۳۵۴)
۱۰:علامہ دمیری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حدیثِ طیر کو امام طبرانی، ابو یعلیٰ اور بزار رحمہم اللہ نے متعدد سندوں سے بیان کیا ہے، لیکن وہ تمام ضعیف ہیں۔" (حیاۃ الحیوان: ۲۴۰/۲)
۱۱:علامہ شوکانی رحمہ اللہ، امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح کے بارے میں فرماتے ہیں: "واعترض علیه کثیر من أھل العلم" اکثراہل علم نے امام حاکم رحمہ اللہ کے اسے صحیح کہنے پر اعتراض کیاہے۔ (الفوائد المجموعة: ص۳۸۲)
۱۲:علامہ محمد بن یعقوب فیروزآبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "له طرق کثیرۃ، کلھا ضعیفة" اس کی بہت سی سندیں ہیں، مگر وہ تمام کی تمام ضعیف ہیں۔ (الفوائد المجموعة للشوکاني:ص۳۸۲)
۱۳:اس کو" ضعیف " ثابت کرنے کے لیے علامہ ابوبکربرقانی رحمہ اللہ نے ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ (البدایة والنھایة لابن کثیر: ۳۵۴/۷)


صحیح حدیث کی مخالفت:حدیث ِطیر "ضعیف " ہونے کے ساتھ ساتھ اس متفق علیہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
٭سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
"میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ، پھر میں نے پوچھا: مردوں میں سے کون ہے؟ فرمایا: ان  کے والد (سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ)۔ میں نے عرض کیا: اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عمر۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے کئی آدمیوں کو شمار کیا۔ میں اس ڈر سے خاموش ہوگیا کہ  آپ ﷺ مجھے سب سے آخر میں ذکر کریں گے۔  " (صحیح البخاری: ۴۳۵۸، صحیح مسلم: ۲۳۸۴)

الحاصل:
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا علی بن ابو طالب  رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو محبوب رکھتے تھے اور اللہ و رسول کو ہاں بھی محبوب تھے۔ (صحیح البخاری: ۴۲۱۰، صحیح مسلم:۲۴۰۶)
البتہ یہ کہنا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کو بالعموم سب سے زیادہ محبوب تھے ، صحیح نہیں، بلکہ حقائق کا چہرہ مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
نبی کریم ﷺ مردوں میں سب سے زیادہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو محبوب رکھتے تھے، تب ہی تو آپ رضی اللہ عنہ کو پہلا خلیفہ منتخب کیا گیا۔ اس حقیقت کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی اعتراف تھا کہ امت کے سب سے بہتر فرد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ سیدنا علی رضی  اللہ عنہ سے یہ قطعاً ثابت نہیں کہ انہوں نے خود  کو نبی کریم ﷺ کا سب سے محبوب خیال کرکے اپنے آپ کو خلافت کا اول حقدار قراردیا ہو۔
دیگر صحابہ کرام بھی یہی سمجھتے تھے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ اس حوالے سے دلائل کا ذکر طوالت کا باعث ہوگا۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ہمارے ایمان کا جزوِلازم ہے۔ دلائل کے ذریعے صحابہ کرام کے فضائل میں باہمی تقابل کسی کی تنقیص کا سبب نہیں بنتا۔  ہم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی محبت کرتے ہیں اور سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی۔
********