تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Thursday, October 02, 2014

٭ زیارتِ قبر نبوی ﷺ سے متعلق روایات کی تحقیق


حج کے دوران قبر نبی کی زیارت کرنا گویا  نبی کریمﷺ کی زندگی میں زیارت کرنا

 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا
" من حج، فزار قبري بعد موتي، کان کمن زارني في حیاتي "
جو شخص میری وفات کے بعد حج کرے، پھر میری قبر کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ہے۔
(المعجم الکبیر لکبیر للطبرانی:۴۰۶/۱۲، سنن الدارقطنی:۲۷۸/۲، الکامل فی الضعفاء الرجال لابن عدی: ۷۹۰/۲،
السنن الکبریٰ للبیہقی:۲۴۶/۵، أخبار مکّة للفاکھی:۴۳۷/۱، مسند أبی یعلیٰ کما فی المطالب العالیة لابن حجر:۳۷۲/۱)

سخت ضعیف : یہ روایت سخت ترین ضعیف ہے، کیونکہ :
1:اس کا راوی حفص بن سلیمان قاری "متروک الحدیث" ہے۔ (تقریب التہذیب لابن حجر: 1404)
٭حافظ ہیثمی فرماتے ہیں: "اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔" (مجمع الزوائد: ۱۶۳/۱۰)
٭ حافظ سخاوی  رحمہم اللہ فرماتے ہیں:   "اسے جمہور اہل علم نے ضعیف کہا ہے" (القول البدیع في الصلاۃ علی الحبیب الشفیع: ص، ۱۲۰)
2: اس کا دوسرا راوی لیث بن ابو سلیم جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔
٭حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اسے جمہور محدثین نے ضعیف قراردیا ہے" (شرح صحیح مسلم: ۵۲/۱)
٭ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اسے جمہور محدثین نے ضعیف قراردیا ہے" (تخریج أحادیث الاحیاء: ۱۸۱۷)
٭ علامہ ہیثمی کہتے ہیں  : "اسے جمہور اہل علم  نے ضعیف قراردیا ہے" (مجمع الزوائد: ۹۰/۱، ۹۱، ۱۷۸/۲)
٭حافظ  بوصیری لکھتے ہیں: "اسے جمہور نے ضعیف قراردیا ہے" (زوائد ابن ماجہ: ۵۴۲)
٭ حافظ ابن ملقن  فرماتے ہیں: "یہ راوی جمہور کے نزدیک ضعیف ہے" (البدر المنیر: ۱۰۴/۲، تحفة المحتاج:۴۸/۲)
٭علامہ ابو الحسن سندھی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:   "زوائد میں ہے کہ لیث بن ابو سلیم راوی کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے" (حاشیة السندي علی ابن ماجه: ۱۸۹۱)
فائدہ: (ا) معجم کبیر طبرانی (۴۰۶/۱۲) اور معجم اوسط طبرانی (۲۰۱/۱) کی سند  میں حفص بن سلیمان کی متابعت عائشہ بنت سعد نے کررکھی ہے لیکن:
٭  اس سند میں عا ئشہ بن سعد مجہول الحال ہے۔
٭اسی طرح اس سند میں علی بن حسن بن ہارون انصاری اور لیث بن بنت لیث بن ابو سلیم کے حالات زندگی  بھی نہیں مل سکے۔
٭اس سند میں چوتھی علت یہ ہے کہ امام طبرانی  رحمہ اللہ کے استاد احمد بن رشدین "ضعیف" ہیں۔ بنا بریں یہ متابعت بے کار اور بے فائدہ ہے۔
(ب)   شفاء السقام سبکی (ص:۲7) میں حفص بن سلیمان قاری کی متابعت جعفر بن سلیمان ضبعی نے کی ہے لیکن وہ بھی بے سود اور غیر مفید ہے، کیونکہ اس کی سند میں ابو بکر محمد بن سری بن عثمان تمار موجود ہے جس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ منکر اور جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔ یوں یہ ناقابل التفات راوی ہے۔" (میزان الاعتدال فی نقد الرجال: ۵۵۹/۳)
٭ اس میں دوسری علت یہ ہے کہ  نصر بن شعیب راوی "ضعیف " ہے۔
تنبیہ:  سبکی کی شفاء السقام (ص:۲۷) میں ابو الیمن ابن عساکر کے حوالے سے لکھا ہے کہ مذکورہ سند میں جعفر بن سلیمان نہیں بلکہ حفص بن سلیمان راوی ابو عمر اسدی غافری قاری ہے۔ اسے جعفر قرار دینا وہم اور تصحیف ہے۔ (اتّحاف الزائر و إطراف المقیم للسائر، ص: ۲۹)
٭ یہ راوی جو بھی ہو، سند بہر حال  ضعیف  ہی ہے۔