تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Monday, September 29, 2014

٭ زیارتِ قبر نبوی ﷺ سے متعلق روایات کی تحقیق


قبرِ نبی کی زیارت شفاعت کا ذریعہ

 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"من زار قبري، وجبت له شفاعتي"
جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوجائے گی
(سنن الدارقطني: ۲۷۸/۲، ح:۲۶۶۹، شعب الإیمان للبیھقي: ۴۹۰/۳، ح: ۵۱۶۹، مسند البزار (کشف الأستار): ۵۷/۲، ح: ۱۱97)
ضعیف: اس کی سند "ضعیف" ہے۔ اس کے بارے میں:
1:امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " میرے دل میں اس کے بارے میں خلش ہے۔ میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں" (لسان المیزان لابن حجر: ۱۳۵/۶)
نیز اس روایت کو امام صاحب نے "منکر" بھی قرار دیا ہے۔ (ایضاً)
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی ساری بحث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی عبارت بیان ہوچکی ہے، نیز انہوں نے اس روایت  کی علت بھی بیان کردی ہے، اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے یہ کہنا درست نہیں کہ اس روایت کو امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ہاں! وضاحت کرکے ایسا بیان کیا جاسکتا ہے۔" (ایضاً)
٭ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے، لیکن امام صاحب نے اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔" (المقاصد الحسنة في بیان کثیر من الأحادیث المشتھرۃ علی الأ لسنة : ۱۱۲۵)
2:  امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس میں کمزوری ہے" (الضعفاء الکبیر: ۱۷۰/۴)
3:حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ روایت منکر ہے" (شعب الإیمان: ۴۹۰/۳)
4: حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ (المجموع شرح المھذّب: ۲۷۲/۸)
5: حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: " یہ حدیث نہ صحیح ہے نہ ثابت۔ یہ تو فن حدیث کے ائمہ کے ہاں منکر اور ضعیف الاسناد روایت ہے۔ ایسی (روایت ) دلیل بننے کے لائق  نہیں ہوتی۔ علم حدیث میں ناپختہ کار لوگ ہی ایسی روایات کو اپنی دلیل بناتے ہیں۔" (الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص: ۳۰)
6: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں" (التلخیص الحبیر: ۲۶۷/۲)
نیز فرماتے ہیں: "اس روایت میں کمزوری ہے" (اتّحاف المھرة: ۱۲۳/۹ - ۱۲۴)
7: حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث منکر ہے" (تاریخ الإسلام: ۲۱۲/۱۱، وفي نسخة: ۱۱۵/۱۱)
٭اس روایت کے راوی موسیٰ بن ہلال عبدی کی توثیق ثابت نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ محدثین کرام نے اس کو "مجہول" اور اس کی بیان کردہ روایات کو "منکر" قرار دیا ہے۔
1:،2: امام ابو حاتم رازی (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۱۶۶/۸) اور امام دارقطنی (لسان المیزان لابن حجر: ۱۳۶/۶) نے اسے " مجہول" قرار دیا ہے۔
3: امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی حدیث ضعیف اور منکر ہوتی ہے۔" (الضعفاء الکبیر:۱۷۰/۴)
4: اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ کے قول "مجھے امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں" ( الکامل في ضعفاء الرجال: ۳۵۱/۶) ذکر کرتے ہوئے حافظ ابن قطان فاسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"حق  بات یہ ہے کہ اس راوی کی  عدالت ثابت نہیں ہوئی" (بیان الوھم والإیھام في کتاب الأحکام: ۳۲۲/۴)
حافظ ابن قطان رحمہ اللہ  کی یہ بات بالکل درست ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ کے اس قول سے موسیٰ بن ہلال عبدی کی توثیق ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ جعفر بن میمون راوی کے بارے میں امام صاحب فرماتے ہیں: "مجھے امید ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی حدیث ضعیف راویوں میں لکھی جائے گی۔" (الکامل: ۱۳۸/۲، وفي نسخة: ۵۶۲)
یعنی امام ابن عدی رحمہ اللہ "ضعیف" راویوں کے بارے میں بھی یہ الفاظ بول دیتے ہیں۔ ان کی مراد شاید یہ ہوتی ہے کہ یہ راوی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا تھا۔
ہماری بات کی تائید علامہ عبد الرحمٰن بن یحییٰ یمانی معلّمی (۱۳۱۳ - ۱۳۸۶ھ) کے ایک قول سے بھی ہوتی ہے۔ یوسف بن محمد بن منکدر کے بارے میں بھی امام ابن عدی رحمہ اللہ نے بالکل یہی الفاظ کہے ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ یمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"میں نے کئی ایسے مقامات پر امام ابن عدی کی طرف سے اس کلمے کا اطلاق دیکھا ہے، جہاں ان کے قول کا مقصود یہی ہوتا ہے کہ یہ راوی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ یہاں بھی یہی معاملہ ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یوسف (بن محمد بن منکدر) کی بیان کردہ روایات ذکر کرنے کے بعد امام ابن عدی نے ایسا کہا ہے اور ان میں سے اکثر روایات منکر ہیں۔" (التعلیق علیٰ الفوائد المجموعة: ص 51)
ثابت ہوا کہ موسیٰ بن ہلال کو واضح طور پر کسی متقدم امام نے"ثقہ" قرار نہیں دیا۔ اس کی حدیث "ضعیف" اور "منکر" ہوتی ہے، جیسا کہ ائمہ کی تصریحات بیان ہوچکی ہیں۔ لہٰذا حافظ ذہبی رحمہ اللہ (میزان الاعتدال: ۲۲۵/۴) کا اسے "صالح الحدیث" کہنا ان کا علمی تسامح ہے، یہ بات درست نہیں۔ ہم نقل کرچکے ہیں کہ خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "منکر" بھی قرار دیا ہے۔
اس لیے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس تسامح کو اس حدیث کی صحت کی  دلیل نہیں بنایا جاسکتا، متقدمین ائمہ حدیث میں سے کسی نے اس حدیث کو "صحیح” قرار  نہیں دیا ۔ اعتبار محدثین ہی کی بات کا ہے۔