تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Saturday, September 06, 2014

آدم علیہ السلام کا نبی ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرنا


آدم  کا نبی ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرنا
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لمّا أذنب آدم ﷺ الذّ نب رفع رأسہ الی العرش، فقال: أسالک بحقّ محمّد الا غفرت لی، فأوحی اللہ الیہ، وما محمّد؟ ومن محمّد؟ فقال: تبارک اسمک، لمّا خلقتنی رفعت رأسی الی عرشک، فاذا فیہ مکتوب مکتوبا: لا الہ الّا اللہ، محمد رسول اللہ، فعلمت أنہ لیس أحد أعظم عندک قدرا ممن جعلت امسہ مع اسمک، فأوحی اللہ عزّوجلّ الیہ: یا آدم! انّہ آخر النّبیّین من ذریّتک، وانّ أمّتہ آخر الأمم من ذریّتک، لولاہ یا آدم! ما خلقتک
” جب آدم  سے خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے ،(اے اللہ!) اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں بحق محمد تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تجھے معاف کردے)، اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی، محمد کون ہیں؟ سیدنا آدم  نے عرض کی، (اے اللہ!) تیرا نام پاک ہے، جب تو نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا، وہاں میں نے  لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ" لکھا ہوا، دیکھا، لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے وحی کی، اے آدم! وہ (محمد ﷺ) تیری نسل سے آخری نبی ہیں، ان کی امت بھی تیری نسل میں سے آخری امت ہوگی اور اگر آپ ﷺ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔“
 (المعجم الکبیر للطبرانی: 182/2،ح: 992، وفی نسخة:82/2، المعجم الوسط للطبرانی:6502)
موضوع (من گھڑت): یہ روایت من گھڑت ہے، کیونکہ:
1:اس میں عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم جمہور کے نزدیک "ضعیف و متروک" ہے،
٭حافظ ہیثمی لکھتے ہیں: "جمہور اس کو ضعیف کہتے ہیں۔" (مجمع الزوائد: 21/2)
٭حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اسے سب نے ضعیف قرار دیا ہے۔" (البدر المنیر: 458/5)
٭اس کو امام احمد بن حنبل۔ امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام یحییٰ بن معین، امام نسائی، امام ابو حاتم الرازی، امام ابو زرعہ الرازی، امام ابنِ سعد، امام ابنِ خزیمہ، امام ابنِ حبان، امام ساجی، امام طحاوی حنفی، امام جوزجانی رحمہم اللہ وغیر ہم نے "ضعیف" قرار دیا ہے۔
٭امام حاکم رحمہم اللہ فرماتے ہیں: "اس نے اپنے باپ سے موضوع (من گھڑت) احادیث بیان کی ہیں۔" (المدخل للحاکم: 154)
٭ یہی بات امام ابو نعیم الاصبہانی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔ (تھذیب التھذیب لابن حجر: 162/6)
یہ حدیث بھی اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے، لہٰذا موضو ع(من گھڑت) ہے۔
2: امام طبرانی رحمہ اللہ کے استاذ محمد بن داؤد بن عثمان الصدفی المصری کی توثیق مطلوب ہے۔
3:اس کے راوی احمد بن سعید المدنی الفہری کی بھی توثیق مطلوب ہے۔