تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Tuesday, September 02, 2014

٭ مسجد کی طرف جاتے وقت دعا


مسجد کی طرف جاتے وقت دعا (وسیلہ کی دلیل)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جو اپنے گھر سے نماز کے لیے نکلے اور یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اپنے چہرے کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس  کے لیے ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے ہیں:
”اللھم انّی أسألک بحق السّائلین علیک، وأسألک بحقّ ممشای ھذا“
”اے اللہ ! میں دعا کرنے والوں کا جو آپ پر حق ہے، اس کے طفیل اور میرے  اور میرے اس چلنے کے طفیل سوال کرتا ہوں۔“
 (سنن ابن ماجہ: 778)
سخت ضعیف: اس کی سند  سخت ترین" ضعیف" ہے،
(ا) اس کا راوی عطیہ بن سعد العوفی جمہور کے نزدیک "ضعیف " ہے، نیز "مدلس" بھی ہے۔
٭حاافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "جمہور کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے۔" (تھذیب الاسماء واللغات للنووی:48/1)
٭حافظ عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "ضعفہ الجمھور" (طرح التثریب لابن العراقی: 42/3)
٭حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "ولأکثر علی تضعیفہ" (مجمع الزوائد:412/10)
٭حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ اسے "ضعیف" قرار دے کر لکھتے ہیں: "جمہور اس کی تضعیف کرتے ہیں۔" (البدر المنیر لابن الملقن:463/7)
٭امام ہشیم بن بشیر اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اسے "ضعیف" قرار دیا ہے۔ (الجرح التعدیل: 383/6)
٭امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ ضعیف حدیث والا ہے۔"، امام ابو زرعہ الرازی نے اسے "لیّن" کہا ہے اور امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ضعیف الحدیث ہے، اس کی حدیث (متابعات و شواہد میں) لکھی جائے گی۔" (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:383/6)
٭امام بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "امام یحییٰ عطیہ پر کلام (جرح) کرتے تھے۔" (التاریخ الکبیر للامام البخاری:83/4)
٭امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ راوی ضعیف ہے، البتہ اس کی روایت (متابعات و شواہد) میں لکھی جائے گی۔" (الکامل لابن عدی: 369/5، وسندہ حسن)
٭ امام نسائی رحمہ اللہ نے "ضعیف"  کہا ہے۔ (میزان الاعتدال:80/3)
٭امام ساجی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل حجت نہیں ہے۔" (تھذیب التھذیب: 202/7)
٭حافظ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "سخت ضعیف ہے۔" (المحلی لابن حزم:86/11)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے "ضعیف" لکھا ہے۔ (میزان الاعتدال فی نقد الرجال للذہبی: 80/3)
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  بھی "ضعیف" قرار دیتے ہیں۔ (تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر: 89/6، بتحقیق المھدی)
لہٰذا امام عجلی، امام ابن سعد اور امام ترمذی رحمہم اللہ کا اسے "ثقہ" کہنا جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔