تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Saturday, September 20, 2014

٭نبی کریم ﷺ کا قبر میں درود سُننا


نبی کریم ﷺ کا قبر میں درود سُننا
 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((من صلى علي عند قبري سمعته، ومن صلی علي نائیا أبلغته))
جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا میں اسے سنو گا اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجے گا مجھے اس کا درود پہنچا دیا جائے گا۔“
(شعب الایمان للبیھقي: 1481، حیاۃ الأنبیاء في قبورھم للبیھقي:19، الضعفاء الکبیر للعقیلی: 136/4-137،
تاریخ بغداد للخطیب: 292/3،  الترغیب و الترھیب: لأبي القاسم الأصبھاني: 1666)
سخت ضعیف: یہ روایت سخت ضعیف ہے، کیونکہ:
1: اس کا راوی محمد بن مروان سدی (صغیر) کے "کذاب" اور "متروک" ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے۔
٭امام احمد بن حنبل، امام ابو حاتم رازی، امام یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام نسائی، امام جوزجانی اور امام ابن عدی رحمہم اللہ وغیرہ نے اس پر سخت جرح کر رکھی ہے۔
2: اس کی سند میں سلیمان بن مہران اعمش "مدلس" ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
                  ٭محدثین کرام اعمش کی ابو صالح سے عن والی  روایت کو "ضعیف" ہی سمجھتے ہیں۔
3: سنن بیہقی والی روایت میں ابو عبد الرحمٰن نامی راوی، اعمش سے بیان کرتا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں: "میرے خیال میں یہ ابو عبد الرحمٰن راوی  محمد بن مروان سدی ہے اور اس میں کلام ہے۔" (حیاۃ الأنبیاء في قبورھم، ص: 103)
اس روایت کے بارے میں محدثین کی آراء:
٭امام عقیلی رحمہ اللہ  اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:"یہ حدیث اعمش کی سند سے بے اصل ہے۔ یہ محفوظ بھی نہیں۔ محمد بن مروان کی  متابعت اس سے بھی کمزور راوی کررہا ہے۔" (الضعفاء الکبیر: 137/4)
٭امام ابن نمیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس (روایت) کو چھوڑ دو، کیونکہ محمد بن مروان کی کوئی حیثیت نہیں۔" (تاریخ بغداد للخطیب : 292/3)
٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔" (الموضوعات: 303/1)
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  "اس کی سند محل نظر ہے، اس کی بیان کرنے میں محمد بن مروان سدی صغیر متفرد ہے اور وہ متروک ہے۔" (تفسیر ابن کثیر: 228/5)