تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Wednesday, August 27, 2014

٭ چالیس حدیثیں حفظ کرنا


چالیس حدیثیں حفظ کرنا
و عن أبی الدرداء قال: سئل رسول اللہ ﷺ: ما حدّ العلم الذي إذا بلغہ الرجل کان فقیھاً؟ فقال رسول اللہ ﷺ: ((من حفظ علیٰ أمتي أربعین حدیثاً في أمر دینھا بعثہ اللہ فقیھاً و کنتُ لہ یوم القیامۃ شافعاً و شھیدًا))
سیدنا ابو الدرداء (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: علم کی وہ کون سی حد ہے جس پر پہنچ کر آدمی فقیہ بن جاتا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص میری امت کے لئے دینی امور میں چالیس حدیثیں حفظ کرے، اللہ اسے فقیہ مبعوث فرمائے گا (یعنی قیامت کے دن بطورِ فقیہ اُٹھائے گا) اور قیامت کے دن اس کے لئے شفاعت کرنے والا اور  گواہ ہوں گا۔"
(بیہقی شعب الایمان: 1726، دوسرا نسخہ: 1597)
موضوع (من گھڑت) :اس کی سند موضوع ہے۔
1: اس کا راوی عبدالملک بن ہارون بن عنترہ کذاب (جھوٹا) تھا۔
٭امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: "کذاب ہے۔" (تاریخ ابن معین،  راویۃ الدوری: 1516)
٭ حافظ ابن حبان نے کہا: "وہ حدیثیں گھڑنے والوں میں سے تھا" (کتاب المجروحین: 133/2، دوسرا نسخہ: 115/2)
٭حاکم نیشا پوری نے گواہی دی: "اس نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں بیان کیں" (المدخل الی الصحیح: ص 170ت129)
یہ روایت بھی (اس تک بشرطِ صحت) اُس نے اپنے باپ سے بیان کی، لہٰذا یہ سند موضوع ہے۔
2: امام بیہقی سے لے کر عبد الملک بن ہارون تک سند بھی صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں عبد اللہ بن نعمان البصری اور عمرو بن محمد صاحبِ یعلی بن الاشدق وغیرہما مجہول راوی ہیں۔

ائمہ و محدثین کی آراء:
٭ امام بیہقی نے فرمایا: یہ متن لوگوں کے درمیان مشہور ہے اور اس کی کوئی سند صحیح نہیں ہے۔ (شعب الایمان: 1727، دوسرا نسخہ: 1598)
٭ ابن الملقن نے کہا: اگرچہ اس کی سندیں متعدد ہیں، لیکن حفاظِ حدیث کا اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ (البر المنیر ج 7 ص 278)
٭حافظ ابن عبد البر نے فرمایا: "اور اس حدیث کی ساری سندیں ضعیف ہیں" (جامع بیان العلم و فضلہ:95/1 تھت ح 156)
تنبیہ: چونکہ بعض علمائے سابقین نے اربعین وغیرہ  اعداد پر کتابیں لکھی ہیں، لہٰذا اقتدائے سلف کی وجہ سے ایسا کرنا جائز ہے اور یہ جواز من باب الاجتہاد ہے۔ واللہ اعلم (حافظ  زبیر علی زئی رحمہ اللہ)