تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Saturday, July 05, 2014

٭ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا

 رمضان کا پہلا  ، دوسرا اور تیسرا عشرہ

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخری روز ہمیں خظاب کرتے ہوئے فرمایا:
أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم، شهر مبارك، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر، جعل الله صيامه فريضة، وقيام ليله تطوعا، من تقرب فيه بخصلة من الخير، كان كمن أدى فريضة فيما سواه، ومن أدى فيه فريضة كان كمن أدى سبعين فريضة فيما سواه، وهو شهر الصبر، والصبر ثوابه الجنة، وشهر المواساة، وشهر يزداد فيه رزق المؤمن، من فطر فيه صائما كان مغفرة لذنوبه وعتق رقبته من النار، وكان له مثل أجره من غير أن ينتقص من أجره شيء» ، قالوا: ليس كلنا نجد ما يفطر الصائم، فقال: يعطي الله هذا الثواب من فطر صائما على تمرة، أو شربة ماء، أو مذقة لبن،
وهو شهر أوله رحمة، وأوسطه مغفرة، وآخره عتق من النار،
من خفف عن مملوكه غفر الله له، وأعتقه من النار، واستكثروا فيه من أربع خصال: خصلتين ترضون بهما ربكم، وخصلتين لا غنى بكم عنهما، فأما الخصلتان اللتان ترضون بهما ربكم: فشهادة أن لا إله إلا الله، وتستغفرونه، وأما اللتان لا غنى بكم عنهما: فتسألون الله الجنة، وتعوذون به من النار، ومن أشبع فيه صائما سقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ حتى يدخلالجنة.
" لوگو تم پر عظيم الشان مہينہ سايہ فگن ہو رہا ہے، يہ بابركت مہينہ ہے، اس ميں ايك ايسى رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے روزے فرض كيے ہيں، اور اس مہينے كى راتوں كا قيام نفلى ہے، جس نے بھى اس مہينہ ميں كوئى خير و بھلائى كا كام سرانجام دے كر قرب حاصل كيا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہينہ كے علاوہ كوئى فرض ادا كيا، اور جس نے اس مہينہ ميں كوئى فرض سرانجام ديا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہينہ كے علاوہ ستر فرض ادا كيے، يہ صبر كا مہينہ ہے، اور صبر كا ثواب جنت ہے، يہ خير خواہى كا مہينہ ہے.
اس ماہ مبارك ميں مومن كا رزق زيادہ ہو جاتا ہے، اور جس كسى نے بھى اس مہينہ ميں روزے دار كا روزہ افطار كرايا اس كے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں، اور اس كى گردن جہنم سے آزاد كر دى جاتى ہے، اور اسے بھى روزے دار جتنا اجروثواب حاصل ہوتا ہے اور كسى كے ثواب ميں كمى نہيں ہوتى.
صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم ميں سے ہر ايك كے پاس تو روزہ افطار كرانے كے ليے كچھ نہيں ہوتا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اللہ تعالى يہ اجروثواب ہر اس شخص كو ديتا ہے جس نے بھى كسى كا روزہ كھجور يا پانى كے گھونٹ يا دودھ كے ساتھ افطار كرايا،
 اس ماہ كا ابتدائى حصہ رحمت ہے، اور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے
جس كسى نے بھى اپنى لونڈى اور غلام سے تخفيف كى اللہ تعالى اسے بخش ديتا اور اسے جہنم سےآزاد كر ديتا ہے، اس ماہ مبارك ميں چار كام زيادہ سے زيادہ كيا كرو: دو كے ساتھ تو تم اپنے پروردگار كو راضى كروگے، اور دو خصلتيں ايسى ہيں جن سے تم بےپرواہ نہيں ہو سكتے:جن دو خصلتوں سے تم اپنے پروردگار كو راضى كر سكتے ہو وہ يہ ہيں: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور اس سے بخشش طلب كرنا.
اور جن دو خصلتوں كے بغير تمہيں كوئى چارہ نہيں: جنت كا سوال كرنا، اور جہنم سے پناہ مانگنا.جس نے بھى اس ماہ مبارك ميں كسى روزے دار كو پيٹ بھر كر كھلايا اللہ سبحانہ و تعالى اسے ميرے حوض كا پانى پلائيگا وہ جنت ميں داخل ہونے تك پياس محسوس نہيں كريگا " ( صحيح ابن خزيمة:  ۱۹۱/۳ح۱۸۸۷)
ضعیف:  امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جو باب قائم کیا ہے وہ کچھ یوں ہے:” اگر يہ حديث صحيح ہو تو فضائل رمضان كے بارہ ميں باب“
۱: اس  کا راوی علی بن زید بن جدعان  ”ضعیف“ہے۔(تقریب التہذیب: ۴۷۳۴)
٭جمہور محدثین کرام نے  اسے ضعیف کہا ہے۔ (زوائد ابن ماجہ:۲۲۸)
٭امام نسائی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے اسے ”ضعیف“ کہا ہے، امام احمد رحمہ اللہ نے اسے”لیس بشئ“ اور امام ابو زرعة اور امام ابو حاتم رحمہمااللہ نے اسے ”لیس بقوی“ کہا ہے۔ دیکھئے: (العلل لابن ابی حاتم: ۲۵۱/۱، الکامل لابن عدی: ۳۳۳/۶، تقریب التہذیب: ۴۳/۲، الجرح والتعدیل: ۲۴۹/۶)
٭امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے کہا :”یہ حدیث منکر ہے ۔“ (العلل لابن ابی حاتم :١/٢٤٩)
٭ علامہ سیوطی نے اسے الدر المنثور میں ذکر کرکے کہا ہے کہ: "اسے عقیلی نے روایت کیا اور اسے ضعیف کہا ہے۔"
٭علامہ عینی حنفی  رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری (۲۰/۹) میں اس پر "منکر" کا حکم لگایا ہے۔
٭شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا :”منکر“ (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة  :٨٧١)
٭شیخ ابو اسحا ق الحوینی مصری حفظہ اللہ نے کہا :”یہ حدیث باطل ہے۔“ (النافلۃ فی الاحادیث الضعیفہ والباطلۃ۔١/٢٩١)
تنبیہ:ابن عدي (۱۱۵۷/۳) اور العقیلي  (۱۶۲/۲) میں اس کا ایک ”سخت ضعیف“ شاہد بھی ہے۔
۱: اس کی سند میں سلام بن سلیمان بن سوار ”منکر الحدیث“ اور سلمة بن الصلت ”غیر معروف“ راوی ہے۔
٭امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لأصل له. ”اس کی کوئی اصل نہیں


تواس طرح اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور اسی طرح اس کی سب کی سب متابعات بھی ضعیف ہیں جس پرمحدثين نے منکر کا حکم لگایا ہے ، اورایسے ہی اس میں ایسی عبارت پائ جاتی ہے جس کے ثبوت میں نظر ہے مثلا :
اسے
تین حصوں میں تقسیم کرنا کہ پہلاعشرہ رحمت اوردوسرا مغفرت اورتیسرا آگ سے آزادی کا ہے ، اس کی کوئ دلیل نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالی کا فضل وکرم وسیع ہے اوررمضان مکمل طور پر مغفرت کا ہے اورہر رات اللہ تعالی جہنم سے آزادی دیتے ہیں اوراسی طرح عید الفطر کے وقت بھی جیسا کہ احاديث صحیحہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔
اوراسی طرح حدیث میں یہ بھی ہے کہ :
(جس نے بھی اس مہینے میں نیکی کی وہ ایسے ہے جس طرح عام دونوں میں فریضہ ادا کیا جائے ) ۔
تواس کی کوئ دلیل نہیں بلکہ نفل تونفل ہی رہتا ہے اورفرض فرض ہی ہے چاہے رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ کوئ اور مہینہ ۔
اورحدیث میں یہ عبارت بھی ہے کہ :
(اور جس نے رمضان میں فرض ادا کیا گویا کہ اس نے رمضان کے علاوہ ستر فرض ادا کیے ) ۔
تواس تحدید میں بھی خلاف ہے کیونکہ رمضان اورمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں نیکی دس سے لیکر سات سو تک ہے تو اس لیے روزے کے علاوہ کسی چيز کی تخصیص نہیں کیونکہ روزے کا اجر بہت زیادہ جس میں مقدار کی تحدید نہیں کی گئ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ : ابوھریرہ رضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالی فرماتا ہے ( روزے کےعلاوہ ہرعمل ابن آدم کے لیے ہے اس لیے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔
تو ضعیف احادیث سے بچنا ضروری ہے اوریہ بھی ضروری ہے کہ اسے بیان کرنے سے قبل حدیث کا درجہ معلوم کرلینا چاہیۓ ، اوررمضان المبارک کی فضيلت میں احادیث کی چھان پھٹک کرکے صحیح احادیث لینی چاہیں ۔
اللہ تعالی سب کو توفیق عطا فرمائے اور روزے اورراتوں کا قیام اورسب اعمال صالحہ قبول فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔
واللہ تعالی اعلم .

ملاحظہ کیجئے فضائل رمضان میں ضعیف حدیث سے متعلق مزید معلو مات