تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Friday, July 18, 2014

٭ انگوٹھے چومنا


انگوٹھے چومنا
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق مسند الفردوس از دیلمی میں روایت ہے:
أنّه لمّا سمع قول المؤذّن: أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ، قال ھذا، وقبّل باطن الأنملتین السبّابتین، ومسح عینیه، فقال صلّی اللہ علیہ وسلّم: من فعل مثل مافعل خلیلی، فقد حلّت علیہ شفاعتی
”جب آپ رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ کہتے سنا تو یہی الفاظ کہے اور دونوں انگشتِ شہادت کے پورے جانبِ زیریں سے چوم کر آنکھوں سے لگائے۔ اس پر نبیٔ اکرم ﷺ نے فرمایا، جو ایسا کرے، جیسا کہ میرے پیارے  نے کیا ہے، اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوجائے۔“
(المقاصد الحسنة للسخاوی: ص 384)

من گھڑت: یہ روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردود وباطل ہے۔
٭ اس کے "صحیح" ہونے کے مدعی پر سند پیش کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ساتھ راویوں کی توثیق اور اتصالِ سند بھی ضروری ہے۔ یہ بدعتیوں کی شان ہے کہ وہ سندوں سے گریزاں ہیں۔
٭پھر مزے کی بات یہ ہے کہ حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ: لا یصح "یہ روایت صحیح نہیں ہے۔"
 بعض بدعتی کہتے ہیں کہ لا یصح "یہ روایت صحیح نہیں ہے۔" سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ "حسن " بھی  نہیں ہے، یہ ان کے اپنے منہ کی بات ہے، ہمیں اس روایت کی سند درکار ہے، جسے پیش کرنے سے بدعتی لوگ قاصر رہتے ہیں۔
 
تنبیہ:احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں: "اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، پھر بھی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف معتبر ہوتی ہے۔" (جاء الحق: 401/1)
ہمارا مطالبہ  سند کا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کا تعلق فضائل اعمال سے نہیں، بلکہ شرعی احکام سے ہے کہ اذان میں نبیٔ اکرم ﷺ کا نامِ مبارک سن کر انگوٹھے چومنے چاہئیں یا نہیں، فضائل کی بات تو بعد میں ہے۔ قارئین کرام خوب یاد رکھیں کہ دین "صحیح" روایات کا نام ہے، فضائل کا تعلق بھی دین سے ہے۔

٭ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ولا فرق فی العمل بالحدیث فی الأحکام أو فی الفضائل، أذا لکلّ شرع "احکام یا فضائل میں حدیث پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ دونوں (فضائل اور احکام) شریعت ہی تو ہیں۔" (تبیین العجب بما ورد فی شھر رجب لابن حجر: ص 2)