تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Friday, June 13, 2014

٭ پندرہ شعبان کی رات اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں


پندرہ شعبان کی رات اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: "ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات کے وقت میری باری تھی، رسول اللہ ﷺ میرے پاس سوئے ہوئے تھے، جب آدھی رات ہوئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو بستر سے گم پایا، مجھے ناگواری ہوئی، جیسے عورتوں کی عادت ہوتی ہے، میں نے چادر اوڑھ لی، اللہ کی قسم! وہ چادر نہ اون اور ریشم کی تھی، نہ خام ریشم کی تھی، نہ ہی ریشم کی تھی، نہ ہی ریشمی کپڑے کی تھی، جس کا تانا بانا ریشم کا ہوتا ہے، نہ روئی کی تھی، نہ ہی سنی کے کپڑے کی تھی، پوچھا گیا، وہ چادر کس چیز کی بُنی ہوئی تھی؟ فرمایا:، اس کا تانا بکری کے بالوں کا اور بانا اونٹ کی بالوں سے بنا گیا تھا، میں نے آپ ﷺ کو دیگر ازواج کے حجروں میں تلاش کیا، وہاں بھی آپ ﷺ نہ ملے، میں اپنے حجرے میں واپس لوٹ آئی، ناگہاں آپ ﷺ پر ایک کپڑا تھا جو زمین پر گرا ہوا تھا، آپ حالتِ سجدہ میں تھے اور یہ دعا پڑھ رہے تھے: سجد للہ سوادی و خیالی، وآمن بک فؤادی، ھذہ یدی، وما جنیت بھا علی نفسی، یا عظیم الرّجاء لکلّ عظیم، اغفر الذّ نب العظیم، سجد و جھی للّذی خلقہ، وشقّ سمعہ۔
آپ ﷺ فارغ ہوکر میرے پاس چادر میں گھس گئے، اس رات میری سانس پھول گئی، مجھے کیا ہوگیا، میں نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سانس کیوں پھول رہی ہے؟ میں نے ساری کاروائی کے بارے میں آپ ﷺ کو آگاہ کیا، آپ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے گھٹنوں پر پھیرنا شروع کیا اور فرمایا: ناس ہو ان دونوں گھٹنوں کی جو اس رات پندرہویں شعبان کو نہ مل سکے (یعنی عبادت نہ کرسکے)، اس رات اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر اترتا ہے، مشرک اور اپنے مسلمان بھائی سے بغض و عداوت رکھنے والے کے علاوہ اپنے تمام بندوں کی بخشش فرمادیتے ہیں۔"
(کتاب احادیث النّزول للدارقطنی:134، کتاب الدعاء للطبرانی:557، شعب الایمان للبیہقی:3838)


ضعیف
: اس کی سند 'ضعیف' ہے، اس میں سلیمان بن ابی کریمہ الشامی راوی 'ضعیف' ہے، جو کہ منکر روایات بیان کرتا ہے۔
٭امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ اسے 'ضعیف' کہتے ہیں۔ (الجرح و التعدیل:138/4)
٭امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کی سب احادیث منکر ہیں۔ (الکامل لابن عدی: 263/3)
٭امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ منکر روایات بیان کرتا ہے، اس کی کثیر روایات پر متابعت نہیں کی گئی۔  (الضعفاء للعقیلی:138/2)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو 'ضعیف' کہا ہے۔ (مجمع الزوائد:119/7، 43/10، 89، 258، 418)
لہٰذا یہ روایت 'ضعیف' اور ناقابل عمل ہے۔
٭حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح نہیں۔ (العلل المتناھیۃ:68/2)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس کی سند میں سلیمان بن ابی کریمہ راوی ہے، اسے ضعیف قرار دیتے ہوئے امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا  ہے کہ اس کی اکثر احادیث منکر ہوتی ہیں۔ (التلخیص الحبیر:254/1)
اس حدیث کے طرق بھی ہیں:
1: (کتاب احادیث النزول للدارقطنی:135، فضائل الاوقات للبیھقی:26)
اس کی سند 'ضعیف 'ہے، اس کا راوی العضر بن کثیر 'ضعیف' ہے۔ (تقریب التھذیب: 7148)
2: (فضائل الاوقات للبیھقی:27، العلل المتانھیۃ:918)
اس کی سند بھی 'ضعیف' ہے ، سعید بن عبد الکریم راوی کی توثیق مطلوب ہے۔
3:(شعب الایمان للبیھقی:3835) یہ 'مرسل' ہونے کی وجہ سے 'ضعیف' ہے، کیونکہ العلاء بن الحارث کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع نہیں ہے، اس میں ایک اور وجہ ضعف بھی ہے۔
4: (میزان الاعتدال للذھبی:55/4 فی ترجمہ محمد بن یحییٰ) اس کی سند 'ضعیف' ہے، محمد بن یحییٰ بن اسمعٰیل التمیمی التمار کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: پندیدہ راوی نہیں ہے۔ (سوالات حمزۃ بن یوسف السھمی للدارقطنی:31)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس نے ایک (مذکورہ) منکر حدیث بیان کی ہے۔
5:(شعب الایمان للبیھقی:3837) اس کی سند'سخت ترین ضعیف' ہے، سلام الطّویل نامی راوی 'متروک' ہے۔ (تقریب التھذیب:3702)
اس کا دوسرا  راوی سلام بن سلیمان المدائنی بھی 'ضعیف' ہے۔ (تقریب التھذیب: 2704)
6:(معجم الشیوخ لابی بکر الاسماعیلی:408/1-409) اس کی سند 'مجہول' راویوں کی وجہ سے 'ضعیف' ہے۔
7: (العلل المتناھیۃ لابن الجوزی:69/2، ح:919) اس کی سند ' سخت ترین ضعیف' ہے، اس کا  ایک راوی عطاء بن عجلان 'متروک و کذاب' اور 'وضاع' ہے۔
ثابت ہوا کہ اس حدیث کے جمیع طرق 'ضعیف' ہیں۔