تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Saturday, June 21, 2014

٭ گھوڑا کھانا حرام ہے


گھوڑا کھانا  حرام ہے 
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
أنّ رسول اللہ ﷺ نھی عن أکل لحوم الخیل و البغال و الحمیر، و کلّ ذی ناب من السباع
"بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے، خچر اور گھریلوگدھے کے گوشت اور ہر کچلی والے درندے کو کھانے سے منع فرمایا۔”(مسند الامام احمد:89/4، سنن ابی داؤد:379، سنن ابن ماجہ:3198۔ شرح معانی الآثار للطحاوی:210/4، المعجم الکبیر للطبرانی:3822، سنن الدارقطنی:287/4، التمھید لابن عبد البر:128/10)

ضعیف: یہ حدیث "ضعیف "ہے۔(لیکن اس حدیث میں مذکور گھریلو گدھے، خچر اور ہر کچلی والے درندے دوسری صحیح احادیث کی روشنی میں حرام ہیں)
٭علامہ سندھی حنفی بلا ردّ و تردید لکھتے ہیں: "علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس بات کو حافظ نووی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔" (حاشیة السندی علی النسائی:202/7)
٭حافظ بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "یہ حدیث ثابت نہیں اور اس کی سند مضطرب ہے۔" (السنن الصغرٰی للبیھقی:63/4-64)
٭امام عقیلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "ان دونوں (سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی گھوڑے کے حلال ہونے والی حدیثوں) کی سند اس حدیث کی سند سے اچھی ہے۔" (الضعفاء الکبیر للعقیلی:206/2)
٭حافظ بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی سند ضعیف ہے۔" (شرح السنة للبغوی:255/11)
٭علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ نے تو اسے "موضوع (من گھڑت)" کہا ہے۔ (المحلی:100/8)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کی(مذکورہ) حدیث صحیح نہیں، امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے اور امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ منسوخ ہے۔" (التلخیص الحبیر لابن حجر:141/4)
اس حدیث کی سند   کا دارومدار صالح بن یحییٰ بن المقدام راوی ہے۔
٭ اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس راوی میں کلام ہے" (التاریخ الکبیر للبخاری:293/4)
٭حافظ موسیٰ بن ہارون الحمال رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "صالح بن یحیٰ اور اس کے باپ کی روایت صرف اس کے دادا (مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ) سے ہی معلوم ہوئی ہے ، اور یہ حدیث ضعیف ہے۔" (سنن دارقطنی:278/4، و سندہ صحیح)
٭علامہ ابن حزم نے اسے "مجہول " کہا ہے۔ (المحلی لابن حزم:100/8)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے "مجہول" کہا ہے۔ (دیوان الضعفاء للذھبی)
٭حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے "لین" کہا ہے۔ (تقریب التھذیب لابن حجر:2894)


صحیح روایات:
٭سیدنا اسماء بنت ِ ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں:  نَحَرْنَا فَرَسًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺَأَكَلْنَاهُ ‏.
 "ہم نے رسول اللہﷺ کے عہدِ مبارک میں گھوڑا ذبح کیا، پھر اس کو کھالیا۔" (صحیح البخاری:5519، صحیح مسلم:1942/سنن النسائی:4426 کی روایت میں ہے: ہم اس وقت مدینے میں تھے، پھر ہم  نے اسے کھایا۔)
فائدہ: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث زیادہ بہتر دلیل، زیادہ قوی اور زیادہ ثابت ہے، جمہور علمائے کرام، جیسے امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور ان کے اصحاب رحمہم اللہ اسی طرف گئے ہیں اور اکثر سلف و خلف کا یہی مذہب ہے۔" (تفسیر ابن کثیر:34/4، بتحقیق عبد الرزاق المھدی)
تنیبہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور چند مالکیوں کے علاوہ باقی تمام جمہور ائمہ دین   اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد  ابو یوسف اور محمد بن حسن الشیبانی بھی گھوڑا حلال ہونے کے قائل تھے۔ دیکھئے (شرح معانی الآثار للطحاوی:210/4)
٭سیدنا جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: "بے شک رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمادیا اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت فرمائی۔" (صحیح البخاری:5520، صحیح مسلم: 1941)

الحاصل: گھوڑا حلال ہے، کیونکہ اس کے حرام ہونے پر قرآن  وحدیث میں کوئی ثبوت نہیں، اس کے برعکس اس کی حلت پر قوی احادیث موجود ہیں۔
٭جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صآحب لکھتے ہیں: "گھوڑے کا کھانا جائز ہے، لیکن بہتر نہیں۔" (بھشتی زیور ازتھانوی: حصہ سوم، صفحہ نمبر 56، مسئلہ نمبر 2)
٭جناب مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی صاحب ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
سوال: کن جانوروں کا جوٹھا پانی پاک ہے؟
جواب: آدمی اور حلال جانوروں کا جوٹھا پانی پاک ہے، جیسے گائے، بکری، کبوتر، گھوڑا! (تعلیم الاسلام از کفایت اللہ:36)