تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Thursday, May 22, 2014

٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھا کر پھینکا


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ خیبر کا دروازہ  اٹھا کر پھینکا
امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے منسوب ہے، وہ اپنے آبا سے بیان کرتے ہیں کہ امیر المومنین، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سہل بن حینف کو خط لکھا:
واللہ، ما قلعت باب خیبر، و رمیت بہ خلف ظھري أربعین ذراعا بقوۃ جسدیۃ ولا حرکۃ غذائیۃ، لٰکني أبدت بقوۃ ملکوتیۃ نفس بنور ربھا مضیۃ، و أنا من أحمد کالضوء من الضوء۔
"اللہ کی قسم! میں نے جو خیبر کے دروازے کو اکھیڑا اور اپنے پیچھے کی طرف چالیس گز کے فاصلے پر پھینک دیا، یہ نہ جسمانی قوت تھی اور نہ خوراک کی طاقت، بلکہ یہ ایک ملکوتی و نورانی قوت تھی، جو میرے رب نے مجھے عطا کی تھی۔ میری احمد ﷺ سے وہی نسبت ہے، جو روشنی کو روشنی سے ہوتی ہے۔" (بحار الأنور للمجلسی الرافضی:26/21)
موضوع (من گھڑت) : یہ جھوٹ کا پلندہ ہے، کیونکہ:
1: امام جعفر کے آبا نامعلوم و "مجہول" ہیں۔
2:محمد بن محصن اسدی عکاشی باتفاق محدثین غیر ثقہ، منکر الحدیث، متروک، کذاب اور وضاع ہے۔
3:یونس بن ظبیان کے حالات اہل سنت کی کتب سے نہیں مل سکے۔ اور کتبِ رجالِ شیعہ میں بھی اس پر جرح  موجود ہے۔
4:علی بن احمد بن موسیٰ بن عمران دقاق کی اہل سنت اور شیعہ کتبِ رجال میں کہیں بھی توثیق نہیں مل سکی۔
5: محمد بن ہارون مدنی بھی "مجہول" ہے۔
6:ابوبکرعبید اللہ بن موسیٰ خباز حبال طبری کی اہل سنت اور شیعہ کتبِ رجال میں توثیق مذکور نہیں، لہٰذا یہ "مجہول" ہے۔


٭مؤرّخِ دیار مصر، علامہ مقریزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"بعض محدثین تو کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھانے کے واقعہ کی کوئی حقیقت ہی  نہیں۔" (إمتاع الأسماع:310/1)
٭علامہ سخاوی لکھتے ہیں:
"اس کے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں اس لئے بعض علما نے اس واقعے کو منکر قرار دیا ہے۔" (المقاصد الحسنۃ:313)

اہل سنت کی کتب میں موجود روایات کی مختصر تحقیق:
روایت نمبر1:مسند الإ مام أحمد:8/6، دلائل النبوّۃ للبیھقی:212/4، سیرۃ ابن ھشام:349،350/6، تاریخ دمشق لابن عساکر:111/42
تحقیق: یہ سند ضعیف ہے، کیونکہ اس میں بَعضُ أَھلِہ "مبہم" اور "مجہول" لوگ ہیں۔ شریعت ہمیں نامعلوم افراد سے دین اخذ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
٭دلائل النبوۃ کی سند میں عبد اللہ بن حسن کا واسطہ گرگیا ہے، اسی لئے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 "اس روایت میں جہالت اور واضح انقطاع موجود ہے۔" (البدایۃ و النھایۃ:191/4)
 
روایت نمبر 2: مصنف ابن أبی شیبۃ:84/12، تاریخ بغداد للخطیب:324/1، تاریخ دمشق لابن عساکر:111/42
تحقیق: اس کی سند "ضعیف " ہے، کیونکہ اس میں لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف" خراب حافظے والا موجود ہے۔
٭  حافظ عراقی، حافظ ہیثمی، حافظ ابن ملقن، حافظ نووی، حافظ بوصیری، علامہ سندھی، حافظ سیوطی رحمہم اللہ نے اسے جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف قرار دیا ہے۔
٭اسے امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، امام ابو زرعہ رازی، امام ابو حاتم رازی، امام عمرو بن علی فلاس، امام دارقطنی، امام نسائی، امام ابن عدی، امام ابن خزیمہ، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام بزار، امام ابن سعد رحمہم اللہ اور جمہور محدثین  کرام نے "ضعیف"قرار دیا ہے۔
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"میرے علم کے مطابق کسی نے اس کے ثقہ ہونے کی صراحت نہیں کی۔" (زوائد مسند البزار:403/2)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "منکر" قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال:113/3)
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس (روایت) میں بھی کمزوری ہے۔" (البدایۃ والنھایۃ: 191/4)
 
روایت نمبر3:دلائل النبوّۃ للبیھقی:212/4 ، المقاصد الحسنۃ للسخاوی:313
تحقیق: اس کی سند سخت ترین "ضعیف" ہے، کیونکہ اس کا راوی حرام بن عثمان سخت ترین"ضعیف" اور مجروح ہے۔
٭اسے امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، ، امام دارقطنی،امام ابن حبان، امام بخاری، امام یعقوب بن سفیان فسوی، امام ابن سعد اور علامہ جوزجانی رحمہم اللہ نے "ضعیف" کہا ہے۔
الحاصل: یہ واقعہ معتبر سندوں سے ثابت نہیں، فضیلت  وہی ہے جو قابل اعتبار سندوں سے ثابت ہو۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت و بسالت کا انکار کوئی کافر ہی کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین قوت بھی عطا فرمائی تھی۔ وہ بلاشبہ شیر خدا تھے۔
حقیقی ہیرو کو کسی جھوٹی فضیلت و منقبت کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن ہمیشہ سے لوگوں کا یہ چلن رہا ہے کہ وہ اپنی من پسند شخصیت کے بارے میں جھوٹی باتیں مشہور کردیتے ہیں،جو اکثر اوقات اس شخصیت کی سیرت کو نکھارنے کی بجائے لوگوں کے ذہنوں میں اس کا غلط تصور بٹھاتی ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ایک ایسی ہی بات  قلعہ خیبر کا دروازہ اکھاڑ پھینکنے والی روایت تھی، یہ واقعہ غیر ثابت اور غیر معتبر ہونے کے ساتھ ساتھ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک مافوق الفطرت مخلوق ہونے کا تصور پیدا کرتا ہے۔