تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Monday, March 03, 2014

٭ قدم بوسی کی ضعیف روایات



https://www.facebook.com/photo.php?fbid=265975820236130&l=7b8218567c

قدم بوسی کی ضعیف روایات
1: سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو یہودیوں نے نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر نو آیاتِ بینات کے متعلق سوال کیے۔ آپ ﷺ نے ان کے جوابات دے دیے ، تو : انہوں نے آپ ﷺ کے دونوں ہاتھوں اور دونوں  پاؤں مبارک کو بوسہ دیا۔ 
(مسند الإمام احمد: 239/ -240 ، سنن الترمذی: 2733، السنن الکبریٰ للنسائی: 3527، سنن ابن ماجہ: 3705، مختصراً)
٭اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "یہ حدیث صحیح ہے۔"
٭ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے، ہمیں اس میں کسی بھی قسم کی کوئی علت معلوم نہیں ہوئی۔ (المستدرک علی الصحیحین: 15/1) حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس بارے میں ان کی موافقت کی ہے۔
ضعیف: یہ حدیث "منکر" ہے۔ اس کا راوی عبد اللہ بن سلمہ اگرچہ "حسن الحدیث" ہے، لیکن آخری عمر میں اس کے حافظے میں خرابی پیدا ہوگئی تھی،
٭جیسا کہ اس کے شاگرد عمرو بن مرہ فرماتے ہیں: "عبد اللہ بن سلمہ بوڑھے ہوگئے تھے۔ وہ ہمیں حدیث بیان کرتے تو ہمیں ان سے کچھ معروف اور کچھ منکر حدیثیں ملتیں۔" (مسند علی بن الجعد: 66 ، العلل  و معرفۃ الرجال للإمام أحمد بروایۃ عبد اللہ: 1824، الجامع لأخلاق الراوی و آداب السامع للخطیب البغدادی: 1920، و اللفظ لہ)
٭ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ معروف اور منکر  دونوں قسم کی روایات بیان کرتا ہے۔" (الجرح و التعدیل لابن أبی حاتم: 74/5)
٭ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ثقہ راوی اس کی روایات کی متابعت نہیں کرتے۔" (السنن الکبریٰ: 3527)
٭ سنی مفسر ، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس حدیث میں اشکال ہے۔ عبد اللہ بن سلمہ کے حافظے میں کچھ خرابی تھی، محدثین کرام نے اس پر جرح پر جرح بھی کی ہے۔  ۔ ۔ ۔ ۔ الخ" (تفسیر ابن کثیر:124/5)
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ سچا راوی تھا لیکن اس کے حافظے میں خرابی واقع ہوگئی تھی۔" (تقریب التہذیب: 3364)
٭ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میں نے امام ابو عبد اللہ ، محمد بن یعقوب الحافظ کو سنا، ان سے محمد بن عبید اللہ یہ سوال کرہے تھےکہ امام بخآری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کو بالکل ہی کیوں چھوڑ دیا تھا؟ اس پر انہوں نے  فرمایا: کیونکہ اس کی سند خراب تھی۔" (المستدرک علی الصحیحین للحاکم:15/1) ، اس کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ کی توجیہ صحیح نہیں۔
الحاصل: مذکورہ بحث کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن سلمہ کی جس حدیث کو محدثین کرام "منکر" قرار دیں گے، وہ "ضعیف" ہوں گی اور باقی "حسن" ہوں گی۔