تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Tuesday, March 11, 2014

٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے سورج کی واپسی


اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل کی جا رہی تھی اور آپ ﷺ کا سر علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا، انہوں نے نماز عصر نہیں پڑھی ہوئی تھی حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا۔  آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کیا تم نے نماز پڑھی ہے؟ تو انہوں نے نفی میں جواب دیا، اس پر آپ ﷺ نے  فرمایا :” اللھمّ إنہ کان فی طاعتک و طاعۃ رسولک فاردد علیہ الشمس“ اے اللہ! وہ تیری اطعت اور تیرے رسول کی اطعت میں تھا لہٰذا اس کے لئے سورج کو واپس بھیج دے۔
اسماء نے کہا: پس  میں نے اسے (سورج کو) دیکھا، غروب ہوا پھر دیکھا کہ غروب ہونے کے بعد (دوبارہ) طلوع ہوا- (مشکل الآثار للطحاوی طبعہ جدیدہ:92/3ح 1067 ، طبعہ قدیمہ : 8/2 ، المعجم الکبیر للطبرانی:147/24-152 ح 390 ، الاباطیل والمناکیر للجورقانی:158/1 ، الموضوعات لابن الجوزی:355/1)
ضعیف: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
٭ابراہیم بن حسن بن حسن بن ابی طالب کی صریح توثیق، زمانئہ تدوین حدیث میں سوائے حافظ ابن حبان کے کسی نے بھی نہیں کی اور مجہول و مستور کی توثیق میں ابن حبان متساہل تھے لہٰذا ابراہیم بن حسن مذکور مجہول الحال ہیں اور حافظ ذہبی نے انھیں ضعیف راویوں میں ذکر کیا ہے۔دیکھئے (دیوان الجعفاء و المتروکین:46/1ت169)
 ٭حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: فضیل بن مرزوق کا ابراہیم (بن حسن بن حسن) سے سماع معلوم نہیں، ابراہیم کا (اپنی ماں) فاطمہ سے اور فاطمہ کا اسماء (بنت عمیس رضی اللہ عنہا) سے سماع معلوم نہیں ہے۔ (منہاج السنہ:190/4)
تنبیہ: شرح مشکل الآثار (94/3 ح 1068 ، دوسرا نسخہ:9/2 )، المعجم الکبیر للطبرانی(145/24 ح382) میں یہ روایت " عون بن محمد عن أمہ أم جعفر عن أسماء بنت قیس رضی اللہ عنہا" کی  سند  سے موجود ہے۔  یہ  سند بھی  ضعیف ہے۔
٭ عون بن محمد اور ام جعفر (ام عون بنت محمد بن جعفر) دونوں کی توثیق نامعلوم ہے یعنی دونوں مجہول الحال تھے۔
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: عون اور اس کی ماں (ام جعفر ) کی عدالت اور حفظ معلوم نہیں ہے۔ (منہاج السنہ ج 4 ص 189)
٭ ام جعفر کا اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے سماع بھی نامعلوم ہے۔ (ایضاً 189)
خلاصۃ التحقیق: سیدنا امیر المومنین علی رضی اللہ عنہا کے لئے سورج کی واپسی والی روایت اپنی دونوں سندوں کے ساتھ ضعیف یعنی مردود ہے۔
اس مردود روایت کی مفصل تحقیق کے لئے دیکھئے منہاج السنہ (185/4-195)

Monday, March 10, 2014

٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شیعہ


حضرت علی کے شیعہ
و عن جابر بن عبد اللہ قال کنا عند النبی ﷺ فاقبل علی فقال النبی ﷺ و الذی نفسی بیدہ ان ھٰذا و شیعتہ ھم الفائزون یوم القیامۃ و نزلت انّ الذین آمنوا (الایۃ) فکان اصحاب النبی ﷺ اذا  اقبل علی قالوا جاء خیر البریہ۔
جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ حضرت علی تشریف لائے آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے کہ  یہ (علی) اور ان کے شیعہ ہی قیامت کے دن رستگاری حاصل کرنے والے  ہیں اس وقت یہ آیت نازل ہوئی انّ الذین امنوا۔ اس کے بعد جب بھی کسی بزم میں حضرت علی  تشریف لاتے تو صحابہ کہتے خیر البریہ "بہترین خلائق" آگئے۔ (تفسیر درِّ منثور ج 6 ص 379 طبع مصر نور الابصار ص 78 طبع مصر و تذکرۃ الخواص ص 31 و ینابیع المودۃ ص 214 و صواعقِ محرقہ ص 159 و فرائد السمطین ج 1 ص 31 و غیرہا)

موضوع(من گھڑت): یہ ساری کتابیں (در منثور، نور الابصار، تذکرۃ الخواص، ینابع المودۃ، صواعق محرقہ اور فرائد السمطین وغیرہا) بے سند کتابیں ہیں لہٰذا سخت ناقابلِ اعتماد ہیں اور ان کا کوئی حوالہ بھی اہل سنت کے خلاف پیش کرنا جائز نہیں۔
درمنثور میں (379/6) میں یہ روایت بحوالہ ابن عساکر مذکور ہے اور ابن عساکر کی تاریخ دمشق (243/45) میں اس کی سند موجود ہے لیکن کئی وجہ سے موضوع ہے:
٭اس کا راوی ابو عقدہ چور تھا اور گندا آدمی تھا۔(الکامل لابن عدی:ج1 ص 209 و سندہ صحیح),
امام دارقطنی نے فرمایا: وہ گندا آدمی تھا۔ (تاریخ بغداد ج 5 ص 22 و سندہ صحیح لسان المیزان ج 1 ص 264ت817)
٭ ابن عقدہ کا استاد محمد بن احمد بن الحسن القطوانی مجہول ہے۔
٭قطوانی کا استاد ابراہیم بن الس الانصاری مجہول ہے۔
٭انصاری کا استاد ابراہیم بن جعفر بن عبد اللہ بن محمد بن مسلمہ بھی مجہول ہے۔
خلاصۃ التحقیق یہ ہے کہ یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے، لہٰذا بغیر جرح کے اس کا بیان کرنا حلال نہیں۔

Sunday, March 09, 2014

٭ چمکتا ہوا ستارہ

 چمکتا ہوا ستارہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل سے دریافت فرمایا:
"اے جبرائیل! ذرا یہ تو بتاؤ تمہاری عمر کتنی ہے۔؟"
حضرت جبرائیل نے عرض کی:
"یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم )! مجھے اپنی عمر کا صحیح اندازہ تو نہیں ہے، لیکن اتنا یاد ہے کہ ساری کائنات کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حجاباتِ عظمت میں سے چوتھے پردے میں ایک ستارہ چمکا کرتا تھا اور وہ ستارہ ستر (70) ہزار سال کے بعد ایک مرتبہ چمکتا تھا۔ اور میں نے اپنی زندگی میں وہ ستارہ بہتر (72) ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔!"
حضور(صلی اللہ علیہ و سلم ) فرمانے لگے:
"اے جبرائیل! مجھے اپنے ربِ ذوالجلال کی عزت کی قسم، وہ (چمکنے والا) ستارہ میں (محمد) ہی ہوں۔"
(السیرۃ الحلبیہ، جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر ۳۰)


موضوع(من گھڑت): یہ ساری بات موضوع اورمن گھڑت ہے دنیا کی کسی کتاب میں اس کی سند موجود نہیں ہے۔
حلبی نے ایک نامعلموم شخص کی کتاب سے اسے نقل کیا ہے چنانچہ؛
علي بن إبراهيم الحلبي(المتوفى: 1044ھ) نے کہا:
رأيت في كتاب التشريفات في الخصائص والمعجزات لم أقف على اسم مؤلفه، عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سأل جبريل عليه الصلاة والسلام فقال يا جبريل كم عمرت من السنين؟ فقال يا رسول الله لست أعلم، غير أن في الحجاب الرابع نجما يطلع في كل سبعين ألف سنة مرة، رأيته اثنين وسبعين ألف مرة فقال: «يا جبريل وعزة ربي جل جلاله أنا ذلك الكوكب» [السيرة الحلبية = إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون  :۴۷/۱ ]
یعنی جس کتاب سے یہ روایت نقل کی گئی ہے وہ نامعلوم مولف کی ہے۔
نیزاس کی کوئی سند بھی نہیں ۔لہٰذا اس روایت کے باطل ہونے میں کوشک نہیں ۔

Friday, March 07, 2014

٭ ضعیف اور موضوع احادیث کا فتنہ


٭ تین قسم کے لوگوں کے پاس (رحمت کے)فرشتے نہیں آتے

سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" ثلاثۃ لا تقربھم الملائکۃ: جیفۃ الکافر، والمتضمخ بالخلوق، و الجنب الا ان یتوضأ"
تین قسم کے لوگوں کے پاس (رحمت کے) فرشتے نہیں آتے: کافر کی لاش، خلوق (زعفران سے مرکب خوشبو) لگانے والا اور جنبی الایہ کہ وہ وضو کرلے۔
(ابو داود:4180)
تحقیق الحدیث: اس کی سند ضعیف ہے۔ کیونکہ اس کی سند میں حسن بصری مدلس ہیں اور یہ روایت عن سے ہے۔

Thursday, March 06, 2014

٭ درود سے متعلق ضعیف روایات


درود سے متعلق ضعیف روایات
"
تمہارے دنوں میں سے افضل جمعہ کا دن ہے، اس میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں فوت ہوئے، اسی میں صور پھونکا جائے گا اور اسی میں قیامت کی بے ہوشی ہے لہٰذا (اس دن) مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوگا۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! ہمارا درود کس طرح آپ پر پیش ہوگا، حالانکہ آپ کا جسم بوسیدہ ہوچکا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے انبیاء کے جسموں کو زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انھیں کھائے۔”
(ابو داود:1047،1531 ، نسائی:91/3 ح 1636 اور ابن ماجہ:1085)
ضعیف: یہ روایت ضعیف ہے، اس روایت میں علت قادحہ یہ ہے کہ حسین الجعفی اور ابو اسامہ کا استاذ عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبد الرحمٰن بن یزید بن تمیم ہے جیسا کہ امام بخاری ، ابو زرعہ الرازی، ابو حاتم الرازی اور دیگر جلیل القدر محدثین کی تحقیق سے ثابت ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے شرح علل الترمذی لابن رجب (679/2 ، 684 ذکر من حدّث عن ضعیف وسماہ باسم ثقہ) اور حافظ زبیر علی زئی کی کتاب: تخریج النہایۃ فی الفتن و الملاحم (ح 545 یسر اللہ لنا طبعہ) حافظ دارقطنی، حافظ ابن القیم اور بعض علماء کا یہ کہنا کہ یہ عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر ہی ہے لیکن ان کی تحقیق کبار علماء کی تحقیقات کے مقابلے میں قابلِ سماعت نہیں ۔لہٰذا یہ روایت عبد الرحمٰن بن یزید بن تمیم کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔
فائدہ: یہ بات بالکل صحیح ہے کہ انبیائے کرام کے اجسام مبارکہ کو، ان کی وفات کے بعد زمین کی مٹی نہیں کھاتی۔(دیکھئے: مصنف ابن ابی شیبہ:27/13-28 ح 33808 و سندہ صحیح)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: بے شک آپ ﷺ اپنی وفات کے بعد اگرچہ زندہ ہیں لیکن یہ اخروی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی کے مشابہ نہیں۔ واللہ اعلم (فتح الباریج 7 ص 349 تحت ح 4042)
تفصیل کے لئے دیکھئے : علمی مقالات ، از   زبیر علی زئی (ج1 ص 19-26)

Monday, March 03, 2014

٭ قدم بوسی کی ضعیف روایات



https://www.facebook.com/photo.php?fbid=265975820236130&l=7b8218567c

قدم بوسی کی ضعیف روایات
1: سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو یہودیوں نے نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر نو آیاتِ بینات کے متعلق سوال کیے۔ آپ ﷺ نے ان کے جوابات دے دیے ، تو : انہوں نے آپ ﷺ کے دونوں ہاتھوں اور دونوں  پاؤں مبارک کو بوسہ دیا۔ 
(مسند الإمام احمد: 239/ -240 ، سنن الترمذی: 2733، السنن الکبریٰ للنسائی: 3527، سنن ابن ماجہ: 3705، مختصراً)
٭اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "یہ حدیث صحیح ہے۔"
٭ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے، ہمیں اس میں کسی بھی قسم کی کوئی علت معلوم نہیں ہوئی۔ (المستدرک علی الصحیحین: 15/1) حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس بارے میں ان کی موافقت کی ہے۔
ضعیف: یہ حدیث "منکر" ہے۔ اس کا راوی عبد اللہ بن سلمہ اگرچہ "حسن الحدیث" ہے، لیکن آخری عمر میں اس کے حافظے میں خرابی پیدا ہوگئی تھی،
٭جیسا کہ اس کے شاگرد عمرو بن مرہ فرماتے ہیں: "عبد اللہ بن سلمہ بوڑھے ہوگئے تھے۔ وہ ہمیں حدیث بیان کرتے تو ہمیں ان سے کچھ معروف اور کچھ منکر حدیثیں ملتیں۔" (مسند علی بن الجعد: 66 ، العلل  و معرفۃ الرجال للإمام أحمد بروایۃ عبد اللہ: 1824، الجامع لأخلاق الراوی و آداب السامع للخطیب البغدادی: 1920، و اللفظ لہ)
٭ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ معروف اور منکر  دونوں قسم کی روایات بیان کرتا ہے۔" (الجرح و التعدیل لابن أبی حاتم: 74/5)
٭ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ثقہ راوی اس کی روایات کی متابعت نہیں کرتے۔" (السنن الکبریٰ: 3527)
٭ سنی مفسر ، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس حدیث میں اشکال ہے۔ عبد اللہ بن سلمہ کے حافظے میں کچھ خرابی تھی، محدثین کرام نے اس پر جرح پر جرح بھی کی ہے۔  ۔ ۔ ۔ ۔ الخ" (تفسیر ابن کثیر:124/5)
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ سچا راوی تھا لیکن اس کے حافظے میں خرابی واقع ہوگئی تھی۔" (تقریب التہذیب: 3364)
٭ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میں نے امام ابو عبد اللہ ، محمد بن یعقوب الحافظ کو سنا، ان سے محمد بن عبید اللہ یہ سوال کرہے تھےکہ امام بخآری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کو بالکل ہی کیوں چھوڑ دیا تھا؟ اس پر انہوں نے  فرمایا: کیونکہ اس کی سند خراب تھی۔" (المستدرک علی الصحیحین للحاکم:15/1) ، اس کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ کی توجیہ صحیح نہیں۔
الحاصل: مذکورہ بحث کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن سلمہ کی جس حدیث کو محدثین کرام "منکر" قرار دیں گے، وہ "ضعیف" ہوں گی اور باقی "حسن" ہوں گی۔

٭ عورت سجدے میں اپنا پیٹ رانوں سے ملائے (2)


عورت سجدے میں اپنا پیٹ رانوں سے ملائے
رسول اللہ ﷺ دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سجد ہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصوں کو زمین سے چمٹا دو اس لئے کہ اس میں عورت مرد کی مانند نہیں ہے۔ (بیہقی :223/2 ، اعلاء السنن:19/3)
منقطع (ضعیف):  امام بیہقی نے روایت مذکورہ کو امام ابو داود کی کتاب المراسیل (ح 87) سے نقل کرنے سے پہلے اسے "حدیث منقطع" یعنی منقطع حدیث لکھا ہے۔ (السنن الکبریٰ: 223/2)
منقطع حدیث کے بارے میں اصول حدیث کی ایک جدید کتاب میں لکھا ہے: "علماء کا اتفاق ہے کہ منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے، یہ اس لئے کہ اس کا محذوف راوی مجہول ہوتا ہے۔" (تیسیر مصطلح الحدیث: ص 78 ، المنقطع)
تنبیہ: مراسیل لابی داود صحاح ستہ کی کتاب نہیں بلکہ صحاح ستہ کی کتاب سنن ابی داود کے مصنف امام ابی داود رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، کتاب المراسیل لابی داود (ح 33) میں آیا ہے کہ طاؤس (تابعی) فرماتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔" (ص 89)
آلِ تقلید کو اس منقطع حدیث سے چڑ ہے۔ یہ لوگ اس حدیث پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں پھر اہل حدیث کے خلاف کتاب المراسیل کی منقطع روایت سے استدلال کر رہے ہیں ! سبحان اللہ !

٭ عورت سجدے میں اپنا پیٹ رانوں سے ملائے


عورت سجدے میں اپنا پیٹ رانوں سے ملائے
"جب عورت نماز میں بیٹھے تو دائیں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ (کرے) تو اپنا پیٹ اپنی رانوں سے ملا ئے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ اسے دیکھ کر فرماتے ہیں اے (فرشتوں) گواہ ہوجاؤ  میں نے عورت کے (؟) بخش دیا۔ " (بیہقی:223/2)
موضوع (من گھڑت): ہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے کیونکہ:
٭اس روایت کے ایک راوی ابو مطیع بن عبد اللہ البلخی کے بارے میں السنن الکبریٰ للبیہقی کے اسی صفحے پر لکھا ہوا ہے کہ ”(امام) ابو احمد (بن عدی) نے فرمایا: ابو مطیع کا اپنی حدیثوں میں ضعیف ہونا واضح ہے۔۔۔ الخ “، اسے امام یحییٰ بن معین وغیرہ نے ضعیف قرار دیا۔ اس پر جمہور محدثین کی جرح کے لئے لسان المیزان (334/2-336) پڑھ لیں۔
٭اس روایت کے دوسری راوی محمد بن القاسم البلخی کا ذکر حلال نہیں ہے۔ دیکھئے لسان المیزان (347/5 ت 7997)
٭اس کے تیسرے راوی عبید بن محمد السرخی کے حالات نامعلوم ہیں۔
٭ خود امام بیہقی نے اس حدیث کو اور دوسر ایک حدیث کو " حدیثان ضعیفان لا یحتج بأمثالھا" قرار دیا ہے۔ (السنن الکبریٰ: 222/2)
تنبیہ: یہ روایت کنز العمال (549/7 ح 20203) میں بحوالہ بیہقی و ابن عدی (الکامل: 501/2) منقول ہے۔(کنز العمال میں لکھا ہوا ہے کہ: عدق و ضعفہ عن ابن عمر) بعض الناس نے کان کو اُلٹی طرف سے پکڑتے ہوئے اسے بحوالہ کنز العمال نقل کیا ہے۔