تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Friday, February 07, 2014

٭ ترکِ رفع الیدین کی مشہور ضعیف حدیث



ترکِ رفع الیدین  کی مشہور ضعیف حدیث
سیدنا عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں؟ ‏پھر آپ نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہیں اٹھائے سوائے پہلی دفعہ کے۔(سنن ترمذی)
ضعیف: (سنن ترمذی:50/1 ح 257 ، المحلىٰ لابن حزم 87/4 ، 88 مسئلہ: 442)  یہ حدیث معلول  اور سنداً ومتناَ دونوں طرح سے ضعیف ہے  ۔
جواب نمبر 1: محدثین کی اکثریت نے اس روایت کو ضعیف ومعلول قراردیا ہے:
1: شیخ الاسلام المجاہد الثقہ عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نے کہا :  ابن مسعود کی( طرف مسنوب یہ ) حدیث ثابت نہیں ہے۔( سنن ترمذی ج1 ص59، ح256 )
2: امام شافعی  رحمہ اللہ نے ترک رفع الیدین کی احادیث کو رد کردیا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہیں ۔ ( کتاب الام ج7 ص201)
3: امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ  نے اس روایت پر کلام کیا ہے۔ ( جزء رفع الیدین 32، ومسائل احمد روایۃ عبداللہ بن احمد ج1 ص240)
4: امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ  نے کہا : ’’ یہ حدیث خطا ہے، کہا جاتا ہے کہ  سفیان ثوری کو اس ( کے اختصار) میں وہم ہوا ہے ۔  کیونکہ ایک جماعت نے اس کو عاصم بن کلیب سے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے  نماز شروع کی، پس ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کیا اور تطبیق کی اور اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھا۔  کسی دوسرے نے ثوری والی بات بیان نہیں کی ہے۔ ( علل الحدیث ج1 ص96 )
نمبر5: امام الدار قطنی رحمہ اللہ  نے اسے غیر محفوظ قرار دیا ۔ ( العلل للدار قطنی ج5 ص173)
نمبر6: حافظ ابن حبان  رحمہ اللہ  نے الصلوۃ میں کہا : ’’ یہ روایت حقیقت میں سب سے زیادہ ضعیف ہے، کیونکہ اس کی علتیں ہیں جو اسے باطل قراردیتی ہیں۔  ( البدر المنیر ج3 ص494)
7:امام ابوداؤود السجستانی رحمہ اللہ  نے کہا: یہ حدیث ایک طویل حدیث سے مختصر ہے لیکن ان الفاظ سے درست نہیں ہے ( سنن ابی داؤود ج1 ص478)
8: یحییٰ بن آدم﷫ (جزء رفع الیدین:32 ،  التلخیص الحبیر:222/1)
9: ابوبکر احمد بن عمر (و) البزار رحمہ اللہ  نے ترک رفع الیدین کی تمام احادیث کو ضعیف کہا ہے۔
(البحرالزخار:ج 5 ص47 ح 1608 ، التمہید 220/9 ، 221)
10: محمد بن وضاح رحمہ اللہ نے ترکِ رفع الیدین کی تمام احادیث کو ضعیف کہا ہے۔(التمہید 221/9 و سندہ قوی)
11:امام بخاری رحمہ اللہ  (جزء رفع الیدین:32  ، المجموع شرح المہذب:403/3 ، ولہ التلخیص الحبیر: 222/1)
12: ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ  سے زیلعی حنفی رحمہ اللہ  نے نقل کیا کہ انہوں نے اس زیادت (دوبارہ رفع الیدین نہ کرنے) کو خطا قرار دیا ہے۔ (نصب الرایہ: 395/1)
13:  عبد الحق الاشبیلی رحمہ اللہ  نے کہا: "لا یصح" (الاحکام الواسطی ج 1 ص 367)
14: ابن الملقن رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ (البدر المنیر: 492/3)
15: امام الحاکم رحمہ اللہ (الخلافیات للبیہقی بحوالہ البدر المنیر: 493/3)
16: امام النووی رحمہ اللہ نےکہا(امام ترمذی  رحمہ اللہ کے علاوہ) سب متقدمین کا اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے (خلاصۃ الاحکام: 354/1)
17: امام الدارمی رحمہ اللہ  (بحوالہ تہذیب السنن للحافظ ابن قیم الجوزیہ﷫: 449/2)
18: امام بیہقی رحمہ اللہ  (بحوالہ تہذ یب السنن : 449/2)
19: محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ  (بحوالہ نصب الرایہ: 395/1)
20: ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ  نے کہا : ضعیف (المغنی: ج1 ص 295 مسئلہ 690)
یہ سب امتِ مسلمہ کے مشہور علماء تھے۔ ان کا اس روایت کو متفقہ طور پر ضعیف و معلول قراردینا
امام ترمذی رحمہ اللہ اور ابن حزم رحمہ اللہ  کی تصحیح پر ہر لحاظ سے مقدم ہے۔ لہٰذا یہ حدیث بلا شک و شبہ ضعیف ہے۔ علل حدیث کے ماہر علماء اگر ثقہ راویوں کی روایت کو ضعیف کہیں تو ان کی تحقیق کو تسلیم کیا جائے گا کیوں کہ وہ اس فن کے ماہر ہیں اور فن حدیث میں ان کی تحقیق حجت ہے
جواب نمبر 2:  اس روایت کا دارومدار امام سفیان ثوری رحمہ اللہ  پر ہے جیسا کہ اس کی تخریج سے ظاہر ہے۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ  ثقہ حافظ، عابد ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے۔ (تقریب التہذیب: 2445) بلکہ بہ تحقیق سرفراز خان صفدر "غضب کے مدلس تھے" لہٰذا سفیان ثوری رحمہ اللہ  کی یہ معنعن (عن والی ) روایت ضعیف ہے۔ اور رفع الیدین کی صحیح  احادیث کے مقابلے میں ضعیف کا وجود اور عدم وجود دونوں برابر ہیں۔
جواب نمبر 3:  سفیان ثوری  رحمہ اللہ  کی اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد کے رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے لہٰذا یہ روایت مجمل ہے۔ اگر اس کو عام تصور کیا جائےتو پھر تارکین رفع الیدین کا خود اس روایت پر عمل نہیں ہے۔
1: وہ وتر میں تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع سے پہلے رفع الیدین کرتے ہیں۔
2: وہ عیدین میں تکبیر تحریمہ کے بعد رفع الیدین کرتے ہیں۔
اگر وتر اور عیدین کی تخصیص دیگر روایات  سے ثابت ہے تو رکوع سے پہلے اور بعد کی تخصیص بھی صحیحین کی روایات سے ثابت ہے۔
اس حدیث سے استدلال کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس حدیث  کے عموم؎
سے وتر اور عیدین کے رفع الیدین کو بچانے کی کوشش کریں،
نوٹ:  رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع الیدین کی ممانعت یا ترک کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ تارکین رفع الیدین کی پیش کردہ سب احادیث باطل، ضعیف و مردود ہیں۔
(مزید تحقیق کے لئے حافظ ابن القیم کی المنار المنیف ص 137 کا مطالعہ کریں)

جواب نمبر 4 :  اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد کے رفع الیدین کا ذکر نہیں۔ امام فقیہ محدث ابو داود رحمہ اللہ نے اس ضعیف حدیث پر یہ باب باندھا ہے۔
"باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع"
یعنی  ، باب جس میں رکوع سے پہلے رفع الیدین کا ذکر نہیں کیا۔ (سنن ابی داود ج1 ص 477 ح 748)
 اور یہ بات عام طلباء کو بھی معلوم ہے کہ عدم ذکر سے نفی ذکر لازم نہیں ہے۔
ابن ترکمانی حنفی نے فرمایا: "جو کسی چیز کو ذکر نہ کرے وہ اس پر حجت نہیں جو کسی چیز کو ذکر کرے"
(الجواہر النقی ج4 ص 317) مشہور محدث حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ  نے فرمایا: "کسی چیز کے عدم ذکر سے اس کا عدم وقوع لازم نہیں آتا" (الدرایہ ج 1 ص 225 حدیث 292 باب الاستسقاء)
لہٰذا امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی عدم ذکر والی  اس ضعیف حدیث  سے بھی ترک رفع الیدین عندالرکوع و بعدہ ثابت نہیں ہوسکتا۔
جواب نمبر 5 : سفیان رحمہ اللہ کی حدیث میں نفی ہے اور صحیحین  وغیر ہما کی متواتر احادیث میں اثبات ہے۔ اور یہ بات عام ہے کہ اثبات نفی پر مقدم  ہوتاہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ نے کہا: "رفع الیدین کی (صحیح) احادیث پر عمل کرنا اولیٰ ہے کیونکہ وہ اثبات ہیں اور یہ  (سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ضعیف حدیث ) نفی ہے۔ پس اثبات کو زیادتِ علم کی وجہ
سے نفی پر مقدم کیا جائے گا۔" (المجموع شرح المہذب 403/3)
حنفی یہ کہتے ہیں کہ " کرخی حنفی رحمہ اللہ نے بھی مثبت کو نفی پر اولیٰ بالعمل قراردیا ہے" (نور الانوار ص 197)
  مزید تحقیق کیلئے ملاحظہ فرمائیں نصب الرایہ (359/1) و فتح الباری (333/1)