تمام ضعیف احادیث کو بغیر ترتیب سے دیکھنے کیلئے بٹن پر کلک کریں

Monday, February 03, 2014

٭کیا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ دوزخی ہیں؟



کیا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ دوزخی ہیں؟
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ : عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا آگ میں ہے۔ (ثلاثۃ مجالس من الامالی لابی محمد المخلدی 1/75-2 ، السلسلۃ الصحیحۃ : 18/5 ، الآحاد و المثانی لابن ابی عاصم :102/2 ح 803)

ضعیف: ثلاثۃ مجالس من الامالی لابی محمد المخلدی ، الآحاد و المثانی لابن ابی عاصم  میں یہ روایت لیث بن أبی سلیم عن مجاھد عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی سند سے موجود ہے۔  یہ سند ضعیف ہے۔ لیث بن ابی سلیم جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے، بوصیری نے کہا : جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (زوائد ابن ماجہ: 208/230) ، ابن الملقن نے کہا: وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ (خلاصۃ البر المنیر : 78 ، البر المنیر : 104/2) امام نسائی نے فرمایا: ضعیف کوفی (کتاب الضعفاء : 511) اس روایت کی  دو سندیں مزید ہیں جو کہ ضعیف ہیں ، لہٰذا اسے صحیح کہنا غلط ہے۔
1: المعتمر بن سلیمان التیمی عن أبیہ عن مجاھد عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ۔۔۔ إلخ (المستدرک للحاکم 378/3 ح 5661 و قال الذہبی فی التلخیص : علیٰ شرط البخاری و مسلم)
یہ سند سلیمان بن طرخان التیمی کے  "عن" کی وجہ سے ضعیف ہے۔ سلیمان التیمی مدلس تھے۔ دیکھئے جامع التحصیل (ص 106) کتاب المدلسین لابی زرعۃ ابن العراقی (24) اسماء من عرف بالتدلیس للسیوطی (20) التبیین لأسماء المدلسین للحلبی (ص 29) قصیدۃ المقدسی و طبقات المدلسین للعسقلانی (52/2) امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: "سلیمان التیمی تدلیس کرتے تھے۔" (تاریخ ابن معین ، روایۃ الدوری: 3600)
امام ابن معین کی اس تصریح کے بعد سلیمان التیمی کو طبقئہ ثانیہ یا اولیٰ میں ذکر کرنا غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ وہ طبقئہ ثالثہ کے مدلس ہیں لہٰذا اس روایت کو "صحیح علیٰ شرط الشیخین" نہیں کہا جاسکتا۔
2: أبوحفص و کلثوم عن أبی غادیۃ قال ۔۔۔۔۔ فقیل قتلت عمار بن یاسر و أخبر عمر و بن العاص فقال : سمعت رسول اللہ ﷺ یقول : إن قاتلہ و سالبہ فی النار ۔۔۔ إلخ" (طبقات ابن سعد : 261/3 و اللفظہ لہ،  مسند احمد 198/4 ، الصحیحۃ : 19/5)
اس روایت کے بارے میں شیخ البانی نے کہا : "وھٰذا أسناد صحیح ، رجالہ ثقات رجال مسلم۔۔۔"
عرض یہ ہے کہ ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ تک اس سند کے صحیح ہونے کا مطلب نہیں ہے کہ "قاتلہ و سالبہ فی النار" والی روایت  بھی صحیح ہے۔
ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "فقیل ۔۔۔ إلخ" پس کہا گیا کہ تو نے عمار بن یاسر کو قتل کیا ہے۔ اور عمرو بن العاص کو یہ خبر پہنچی ہے تو انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک اس (عمار) کا قاتل اور سامان لوٹنے والا آگ میں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا راوی "فقیل" کا فاعل ہے جو نامعلوم (مجہول) ہے۔راوی اگر مجہول ہو تو روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ  "فی النار" والی روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ "إسنادہ صحیح" نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ سے روایت دو راوی بیان کررہے ہیں : (ا) ابو حفص : مجہول  (ب) کلثوم بن جبر : ثقہ
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ انھوں نے کس راوی کے الفاظ بیان کئے ہیں ؟ ابو حفص (مجہول) کے یا کلثوم بن جبر (ثقہ) کے اور اس بات کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ کیا دونوں راویوں کے الفاظ من و عن ایک ہی ہیں یا ان میں اختلاف ہے۔
تنبیہ: ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ کا سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں شہید کرنا ان کی اجتہادی خطا ہے جس کی طرف حافظ ابن حجر العسقلانی نے اارہ کیا ہے۔ دیکھئے الاصابۃ (151/4 ت 881 ، ابو الغادیۃالجہنی)